رضامندی کو ایمان کی لذت یابی اور بشاشت بتایا گیا ہے۔ یہ احادیث اسی آیت کی تشریح ہیں ، تفسیر قرآن کا دوسرا ماخذ حدیث نبوی ہے، ان احادیث میں اسی آیت کا مضمون واضح فرمایا گیا ہے۔
مولانا ابوالکلام آزاد رحمۃ اللہ علیہ کے بقول:
’’محبت ایمانی کی اس آزمائش میں صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جس طرح پورے اترے، اس کی شہادت تاریخ نے محفوظ کرلی ہے، اور محتاج بیان نہیں ، بلا شائبہ مبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ دنیا میں انسانوں کے کسی گروہ نے کسی انسان کے ساتھ اپنے سارے دل اور اپنی ساری روح سے ایسا عشق نہیں کیا ہوگا جیسا صحابہ نے اللہ کے رسول سے راہِ حق میں کیا، انہوں نے اس محبت کی راہ میں سب کچھ قربان کردیا، جو انسان کرسکتا ہے، اور پھر اسی کی راہ سے سب کچھ پایا جو انسانوں کی کوئی جماعت پاسکتی ہے؛ لیکن آج ہمارا حال کیا ہے؟ کیا ہم میں سے کسی کو جرأت ہوسکتی ہے کہ یہ آیت سامنے رکھ کر اپنے ایمان کا احتساب کرے؟۔ (ترجمان القرآن ۳؍۲۵۴-۲۵۵)
مختصر لفظوں میں اس آیت کا پیغام یہ ہے کہ اے مدعیانِ اسلام! اپنے گریبانوں میں منہ ڈالو، اپنے اندرون کا جائزہ لو، اپنے باطن کا محاسبہ کرو، اور اپنے دل کے نہاں خانوں میں ٹٹولو کہ کہیں تمہارے دل نے عشق ومحبت اور اظہار عقیدت کے لئے اللہ ورسول کے سوا اور دوسرے بت تو منتخب نہیں کرلئے ہیں ؟ اگر ایسا ہوا ہے تو سمجھ لو کہ ایمان کی نورانیت وروحانیت سے تمہارا دل محروم اور سینہ خالی ہے، اب اگر ایمان کی اصل تابندگی اور روح کی تلاش ہے تو اللہ ورسول سے اس طرح محبت کرنا ہوگی کہ کائناتِ عالم کی تمام محبتیں اس کے سامنے بے مایہ اور بے حقیقت ہوجائیں ، قرآن کریم یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ بیویوں سے، بچوں سے، خاندان سے مطلق محبت نہ کرو، نہیں ! بلکہ قرآن صرف یہ کہتا اور چاہتا ہے:
قدم اٹھاؤ ترقی کرو ضرور وَلے
رہے رسول کے قدموں میں سر خدا کے لئے
،l،