کو یاد دلایا جائے۔ پھر یہ کہ جو تعزیت کے معنی ہیں کہ اہلِ میّت کو تسلی دیں کہ ان کو صبر کی فہمایش کریں اس کا تو کہیں پتا بھی نہیں ہوتا۔ بعض تو اس قصہ کو زبان تک نہیں لاتیں۔ آکر مجمع میں بیٹھ گئیں تو غیبتیں شکایتیں جہان بھر کی شروع ہوجاتی ہیں، ذرا کوئی پوچھے کہ تمہاری تشریف آوری سے کیا فائدہ ہوا۔ بس ایک الزام اتارنا ہے اور کچھ بھی نہیں۔ اور بعض جو درد مند ہیں وہ عقل مند بجائے اس کے کہ صبر دلاتیں الٹا صاحبِ خانہ کے گلے لگ کر روناپیٹنا شروع کردیتی ہیں اس میں بڑی محبت ظاہر ہوتی ہے۔
استغفراللہ!نوحہ اور ۔ِچلا۔ّ نے کا جو گناہ ہے وہ الگ رہا، خود عقل کے بھی تو خلاف ہے۔ ہمدردی کے معنی تو یہ ہیں کہ اہلِ میّت کے دل کو تھاما جاوے، نہ کہ اور زیادہ برانگیختہ کیا جاوے، تو غرض یہ بھی تعزیت نہ ہوئی تو عورتوں کا آنا محض بے کار ٹھہرا اور ان کے جمع ہونے میں اور بھی بہت سی خرابیاں ہیں، جو تجربہ سے معلوم ہوتی ہیں۔ اور بابِ دوم میں کسی قدر اس جمعیت نامبارک کا بیان بھی ہوچکاہے۔
دوسرے میّت کے گھر آکر اپنی مہمان داری کرانا، ان سے پان چھالیہ لینا یا کھانا لینا خود ایک امرِمذموم ہے، چناںچہ کتبِ فقہ میں تصریح موجود ہے، البتہ جو دور کا مہمان ہو اور تعزیت کے لیے آیا، اس کے لیے جائز ہے، چناںچہ ’’دُرّ مختار‘‘ میں کتاب الوصیت میں مذکور ہے۔
غرض یہ کہ اہلِ میّت پر اس قسم کا بار ڈالنا اور ان کو تکلیف پہنچانا بالکل خلافِ شرع اور نہایت ہی بے دردی کی دلیل ہے، ہمارے اطراف میں ایسا برا دستور ہے کہ مدتوں میّت کے گھر گاڑیوں کی چڑھائی رہتی ہے۔ گھر والا گھاس دانہ دیتے دیتے اور ان مہمانوںکی خاطر داری کرتے کرتے تنگ ہوجاتا ہے۔ حدیث میں بالتصریح میزبان کو تنگ کرنے کی حرمت وارد ہے۔اور غضب در غضب یہ ہے کہ بیوہ عورت کو ایک بار تو شوہر کی موت پر اس طرح تنگ کیا تھا کہ ابھی وہ اس بار سے ہلکی نہ ہونے پائی تھی کہ انقضائے عد۔ّ ت کے وقت پھر وہی فوج کشی ہوتی ہے، گویا عد۔ّ ت کوئی تنگ کوٹھری ہے کہ اس میں سے نکالنے کے واسطے مجمعِ عظیم کی ضرورت ہے کہ کوئی ہاتھ پکڑے گا، کوئی پاؤں پکڑے گا اور سب مل کر اس سے نکالیںگے۔ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ۔
تیسرے یہ خرابی ہے کہ ان تمام نزدیک ودور کے مہمانوں کا خرچ گھر والا ترکۂ مشترکہ میں سے لٹاتاہے، یہ بھی صریح ظلم اور حق تلفی دوسرے وُرثاء کی ہے، جس کو مہمان داری کرنا ہو اپنے حصہ میں سے کرے۔ دوسروں کے مال میں تصرف کرنا بلا اذن معتبرِ شرعی بالکل حرام ہے۔ اور یہ عذر کرنا کہ میرا حصہ ان مصارف کے لیے کافی نہیں، بالکل لچر بات ہے۔ اگریہ سب حصے بھی کافی نہ ہوں تو کیا پڑوسیوں کی چوری بھی حلال ہوجاوے گی۔