بیان کیا گیا اور گو کسی خاص فہیم شخص کا یہ عقیدۂ فاسد نہ ہو اور وہ ان اُمور کو مؤکد نہ سمجھتا ہو، اور نہ تارک کو قابلِ ملامت و نفرت جانتا ہو، گو اس وقت میں ایسے لوگ عنقا صفت ہیں، لیکن فرضاً اگرکوئی ہو بھی تو غایت مافی الباب1 وہ اپنے فسادِ عقیدہ وعمل کے گناہ سے بچ گیا، مگر اس کے کرنے سے اگر دوسرے فاسد الاعتقاد وفاسد العمل کو سہارا لگا، ان کے فعل مکروہ کے ترویج1 و تائید کے الزام سے یہ شخص کیسے بچ سکے گا، جیساکہ قاعدئہ دوم میں مذکور ہوچکا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ جہاں یہ مفاسدِ مذکورہ نہ ہوں گو اس کی توقع عوام کی حالت پر نظر کرنے سے بہت ہی بعید ہے، لیکن اگر فرضاً کسی وقت یا کسی موقع پر ایسا ہو تو وہاں اجازت دی جاوے گی۔ مگر اس وقت اجازت کے فعل میں بھی ضروری ہوگا کہ ان قیود کو جس طرح عقیدتاً غیر مؤکد سمجھیں اسی طرح اپنے عمل سے بھی ان کامؤکد نہ ہونا بار بار ظاہر کرتے رہیں۔
مثلاً: کبھی شیرینی تقسیم کردیں، کبھی نقد یا غلہ یا کپڑا مساکین کوخفیتًا دے دیں اور جب کبھی گنجایش نہ ہو یامحض رخصتِ شرعی پر عمل کرنے کے لیے کچھ بھی نہ دیا کریں۔ کبھی اثنائے بیان فضائل وشمائلِ نبویہ علیہ الصلاۃ والسلام والتحیۃ میں اگر شوق و وجد غالب ہوجاوے کھڑے ہوجاویں، پھر اس میں کسی خاص موقع کی تعیین کی کوئی وجہ نہیں۔ جب کیفیت غالب ہو،خواہ اوّل میں یا وسط میں یا آخر میں، اور خواہ تمام بیان میں ایک بار یا دوبار اور جب یہ غلبہ نہ ہو بیٹھے رہا کریں، کبھی باوجود غلبہ کے اسی طرح ضبط کرکے بیٹھے رہیں اور نہ محفلِ مولود کی تخصیص کریں، اور اگر اور موقع پر بھی حضور ﷺ کے ذکر سے غلبہ وشوق ہو وہاں بھی گاہ گاہ کھڑے ہوجایا کریں۔ عَلَی ہٰذَا الْقِیَاسِ، سب قیودِ مباحہ کے ساتھ یہی عمل رکھیں، تو اس طرح کی محفل گو سلفِ صالحین سے منقول نہیں، مگر بوجہ مخالف نہ ہونے قواعدِ شرعیہ کے ممنوع بھی نہ کہی جاوے گی۔ یہ حکم ہے صورت ِسوم کا باعتبار فتویٰ کے، لیکن مصلحتِ انتظامِ دین کا مقتضا یہ ہے کہ اس سے بھی احتیاط رکھیں۔ کیوں کہ یہ خود نہ ضرورتِ دین سے ہے نہ کسی ضرورتِ دینی کا موقوف علیہ ہے اور ایک بار یہی ہیئتِ اجتماعیہ مباحہ مفضی الی المفاسد2 ہو بھی چکی ہے، جیساکہ پیشِ نظر ہے اور جہل روز بروز غالب ہوتا جاتاہے اس لیے مرتبۂ تقویٰ احتیاط ہی میں ہے۔ واللّٰہ تعالٰی أعلم وعلمہ أتم وأحکم۔
اب بعض لوگوں کے کچھ شبہات کا مختصر جواب لکھا جاتاہے۔ بعض یہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث شریف تو خود حضورسرورِ عالم ﷺ سے منقول ہے، ورنہ ہم تک روایت کیوںکر پہنچتی۔ جواب اس کا یہ ہے کہ جو منقول ہے وہ پہلی صورت ہے اور گفتگو صورتِ سوم میں ہے۔
بعض کہتے ہیں کہ بڑے بڑے ۔ُعلما سیوطی وابنِ حجر وملا علی قاری ؒ وغیرہم نے اس کا اثبات کیا ہے۔ جواب یہ ہے کہ اوّل تو اس وقت بھی ۔ُعلما نے ان کے ساتھ اختلاف کیا تھا اور قطعِ نظر اس سے یہ کہ ان کے زمانہ میں مفاسد مذکورہ پیدا نہ ہوئے