دریافت کیا، آپ نے فرمایا کہ ’’پیغمبر ِخدا ﷺ کے زمانۂ مبارک میں ہم لوگ ختنہ میں نہیں جاتے تھے،اور نہ اس کے لیے بلائے جاتے تھے‘‘۔ روایت کیا اس کو احمد نے۔
اس سے معلوم ہوا کہ جس کام کے لیے لوگوں کو بلانا سنت سے ثابت نہیں، اس کے لیے بلانے کو صحابی نے ناپسند فرمایا اور جانے سے انکار کیا۔ اور راز اس میں یہ ہے کہ بلانا دلیل ہے اہتمام کی، تو شریعت نے جس امر کا اہتمام نہیں کیا، اس کا اہتمام کرنا دین میں ایجاد کرنا ہے۔ اسی وجہ سے حضرت ابنِ عمر ؓ نے لوگوں کو جب مسجد میں چاشت کی نماز کے لیے مجتمع دیکھا تو براہِ انکار اس کو بدعت فرمایا اور اسی بنا پر ۔ُفقہا نے جماعتِ نافلہ کو مکروہ کہا ہے۔ اور حضرت حق تعالیٰ اور انبیا اور ملائکہ ؑ کی گستاخی کا مذموم وکفر ہونا محتاجِ بیان نہیں۔ کون مسلمان اس کا منکر ہے، گو بہت سے جاہل شاعر اس میں مبتلا ہیں۔ نہ ایسے اشعار کا تصنیف کرنا جائز، نہ اس کا پڑھنا سننا جائز۔ اسی طرح نماز با جماعت یا وقت کا ضائع کرنا ظاہر ہے کہ حرام ہے اور جو ذریعہ گناہ کا ہو وہ بھی گناہ ہوتا ہے، اسی لیے حدیث شریف میں ۔ِعشا کے بعد باتیں کرنے سے ممانعت آئی ہے1 اور اس کی وجہ شر۔ّاحِ حدیث نے یہی لکھی ہے کہ اس سے صبح یا تہجد کی نماز میں خلل پڑے گا۔ اسی طرح نمایش اور فخر کا حرام ہونا سب جانتے ہیں اور ذریعہ حرام کا حرام ہی ہوتاہے۔
حدیث میں ہے: ’’جو شخص شہرت کا کپڑا پہنے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن ذلت کا لباس پہناویں گے‘‘۔2 اور حدیث میں ہے کہ ’’تھوڑا سا رِیا بھی شرک ہے‘‘۔ اور حاضر ناظر ہونا موقوف ہے علم وقدرت پر، چوںکہ حق تعالیٰ کا علم وقدرت دونوں کامل ہیں، اس لیے وہ ہر زمان ومکان میں حاضر وناظر ہیں۔ یہ اعتقاد حضور سرورِ عالم ﷺ کے ساتھ، انبیا اور اولیا کے ساتھ کرنا اگر اس بنا پر ہے کہ آپ کے لیے علم وقدرت ذاتی ثابت کرتا ہے جیسا کہ بعض ۔ُجہلا کا عقیدہ ہے تب تو یہ شرک ہے، گو اللہ تعالیٰ سے کم ہی سمجھتا ہو۔ کیوںکہ مشرکینِ عرب بہ نصِ قرآنی مشرک ہیں اور یہ بھی قرآن ہی سے ثابت ہے کہ وہ اپنے دیوتاؤں کو اللہ تعالیٰ کے برابر نہ سمجھتے تھے۔ اور اگر یوں جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اطلاع اور اِذن دیتا ہے، تو شرک تو نہیں ہے، مگر بلاحجتِ شرعیہ گناہ ضرور ہے، اس لیے کہ جھوٹ سب جانتے ہیں کہ حرام ہے اور جھوٹ جیسا زبان سے ہوتاہے دل سے بھی ہوتاہے، مگر اصل تو دل میں ہی ہوتا ہے، وہاں سے زبان پر آتاہے، حتیٰ کہ بدگمانی کہ محض فعلِ قلب ہے، اس کی نسبت حق تعالیٰ نے {إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ} فرمایا ہے اور حدیث میں فَإِنَّ الظَّنَّ أَکْذَبُ الْحَدِیْثِ آیا ہے۔
غرض ان اُمورِناجائز سے وہ مجلس بھی ناجائز ہوتی ہے اور اس میں شرکت درست نہیں ہوتی۔ اور آج کل اکثر ایسی ہی مجلسیں ہوتی ہیں کہ ان میں اگر کل اُمور ناجائز نہیں ہوتے تو بعض تو غالباً ضرور ہوتے ہیں اور مجلس کے ناجائز ہونے کے