۸۔ نائی اطلاعی خط لے کر بہو کی سسرال میں جاتاہے اور وہاں اس کو کچھ انعام دیا جاتاہے۔ خیال کرنے کی بات ہے کہ جو کام ایک پیسہ کے کارڈ میں نکل سکتا ہے، اس کے لیے خاص کر ایک آدمی کا جانا یہ کون سا امرِ معقول ہے۔ پھر خواہ سسرال میں کھانے کو میسر ہو یا نہ ہو مگر نائی صاحب کا قرض جو نَعُوْذُ بِاللّٰہ! خدا کے فرض سے بڑھ کر سمجھا جاتاہے، ادا کرنا ضروری ہے، اور وہی ناموری کی نیت ہونا وغیرہ جو ظلمات ہیں وہ یہاں بھی رونق افروز ہیں، اس لیے یہ بھی جائز نہیں ہوسکتا۔
۹۔ پھر سوامہینے کا چلہ۔ّ نہانے کے وقت، پھر سب عورتیں کنبہ کی جمع ہوتی ہیں اور کھانا وہاں ہی کھاتی ہیں اور رات کو کنبہ برادری میں دودھ چاول تقسیم ہوتے ہیں۔ بھلا صاحب! یہ زبردستی کھانے کی پخ لگانے کی کیا وجہ؟ دو قدم پر گھر، مگر کھانا کھائیں یہاں، وہی مثل ’’مان نہ مان میں تیرا مہمان‘‘۔ ان کی طرف سے تو یہ زبردستی اور گھر والوں کی نیت ناموری اور طعن و تشنیع سے بچنے کی، یہ دونوں وجہ اس کی ممانعت کے لیے کافی ہیں۔ اسی طرح دودھ چاول کی تقسیم یہ بھی محض لغو ہے۔ ایک بچے کے ساتھ تمام بزرگان مقطع کو شیرخوار بنانا ضرور کیا تھا۔ پس اس میں بھی وہی نام ونمود کا زہر اس رسم کے ممنوع ہونے کے لیے بس ہے۔
۱۰۔ اس سوا مہینے تک زچہ کو نماز کی ہر گز توفیق نہیں ہوتی۔ بڑی بڑی پابندِ نماز بے پرواہی کر جاتی ہے۔ مسئلہ شرعیہ ہے کہ نفاس کے اقل درجہ کی کوئی حد نہیں، جس وقت خون بند ہوجاوے، فورًا غسل کرلے اور اگرغسل نقصان کرے تو تیمم کرکے نماز پڑھنا شروع کرے۔ ایک وقت کی فرض نماز بھی بلا عذر شرعی چھوڑنا سخت گناہ ہے۔ حدیث میں ہے کہ’’ ایسا شخص دوزخ میں ہوگا، فرعون، ہامان اور قارون کے ساتھ‘‘۔1
۱۱۔ پھر باپ کے گھر سے سسرال میں آنے کے لیے چھوچھک کی تیاری ہوتی ہے، جس میں حسبِ مقدور سب سسرال والوں کے جوڑے اور برادری کے لیے پنجیری اورلڑکی کے لیے زیور، برتن، جوڑے وغیرہ ہوتے ہیں۔ جب بہو چھوچھک لے کر سسرال میں آئی، وہاں سب عورتیں چھوچھک دیکھنے آتی ہیں اور ایک وقت کھانا کھاکر چلی جاتی ہیں۔ ان سب امور پر جو کچھ پابندی ہے کہ پابندیٔ فرائض سے بڑھ کر برتی جاتی ہے، اور وہی نیت نمایش وناموری کی ہونا، وہ ظاہر ہے، جس میں حدودِ شرعیہ سے تجاوز اور تکبر وافتخار کوٹ کوٹ کر بھرا گیا ہے، جس کے حرام ہونے میں آیات واحادیث بکثرت موجود ہیں۔
آدابِ مسنونہ تولّد کے وقت یہ ہیں کہ جب لڑکا پیدا ہو اس کو نہلا دھلاکر اس کے داہنے کان میں اذان اور بائیں میں تکبیر کہی جائے اور کسی بزرگ متقی سے تھوڑا چھوہارا چبواکر اس کے تالو کو لگادیاجائے اور باقی تمام امور مذکورہ یا اذان کی مٹھائی، یہ سب فضول، غیر معقول اور مکروہ ہیں۔