دیتیں، بلکہ ٹھیکری میں ڈال دیتی ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے، یہ کون سا طریقہ دینے کا معقول ہے کہ ہاتھ کو چھوڑ کر ٹھیکری میں ڈالا جائے؟ اوراگر ٹھیکری میں نہ ڈالیں، ہاتھ میں دیںتب بھی غور کرنے کی بات ہے کہ ان دینے والوں کا مقصود اور نیت کیا ہے؟
جس وقت یہ رسم ایجاد ہوئی ہوگی اس وقت کی تو خبر نہیں کہ کیا مصلحت ہو، شاید بوجہ مسرتِ طبعی7 کے ہو کہ سب عزیزوں کا دل خوش ہوا، بطورِ انعام کے سب نے کچھ دے دیا۔ مگر اب تو یقینی بات ہے کہ خواہ مسرت ہو یا نہ ہو ضرور دینا ہوتاہے۔ بعض عورتیں کنبہ کی نہایت مفلس اور نادار، مگر باصرار ان کو بلایا جاتاہے، اگر نہ جاویں تو تمام عمر شکایت گائی جاوے اور اگر جاویں تو اٹھنی۔ّ چو۔ّنی کا انتظام کرکے لے جاویں، نہیں تو بیبیوں میں سخت ذلت اور شرمندگی ہے۔ غرض جاؤ اور جبر۔ًا قہر۔ًا دے کر آؤ۔ کیسا صریح ظلم ہے کہ گھر بلاکر ۔ُلوٹا جائے۔ بجائے مسرت کے بعضوں کو پورا جبر گزرتاہے، مگر یہ امکان نہیں کہ ٹیکس نہ ادا کیا جائے۔ سرکاری مال گزاری میں اکثر مہینوں کی دیر ہوجاتی ہے، مگر اس میں ایک منٹ کا توقف نہیں ہوتا، بلکہ میعاد سے پہلے مہیا کرلینا واجب ہے۔ فرمایے کہ اس طرح اور اس نیت سے مال کا خرچ کرنا یا لینے والے کو یا گھر والوں کو اس لینے دینے کا باعث بننا کہاں جائز ہے؟ کیوںکہ دینے والے کی نیت تو محض تعز۔ّز وتر۔ّفع ہے جس کی نسبت حدیث میں آیا ہے کہ ’’جو شخص شہرت کا کپڑا پہنے گا قیامت میں اللہ تعالیٰ اس کو ذلت کا لباس پہناویں گے‘‘۔1 یعنی جو کپڑا خاص شہرت کی نیت سے پہنا جاوے۔ معلوم ہوا کہ کوئی کام شہرت کی غرض سے کرنا جائز نہیں۔ یہاں تو خاص یہی نیت ہوتی ہے کہ دیکھنے والے کہیں گے کہ فلاں نے یہ دیا، ورنہ مطعون کریں گے کہ ایسے آنے کی کیا ضرورت تھی۔ دینے والے کو تو یہ گناہ ۔
اب لینے والے کو سنیے۔ حدیث میں آیا ہے کہ ’’کسی مسلمان کا مال حلال نہیں بدون اس کے دل کی خوشی کے‘‘۔ جب ایک شخص نے جبرًا کراہیت سے دیا، لینے والے کو لینے کا گناہ ہوا اور دینے والا با وسعت ہے اور اس کو جبر بھی نہیں گذرا، مگر غرض تو اس کی بھی وہی تر۔ّفع اور افتخار ہے جس کی نسبت حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے ان لوگوں کی دعوت قبول کرنے سے جو فخر کے لیے کھانا کھلاویں۔2 غرض ایسے شخص کا کھانا یا اس کی چیز لینا بھی ممنوع ہے، کیوں کہ اس میں اس کی معصیت کی اعانت ہے اور اعانتِ معصیت خود معصیت ہے۔ غرض لینے والا بھی گناہ سے نہ بچا۔
اب گھر والوں کو لیجیے کہ وہی لوگ بلا بلا کر باعث اس معصیت کا ہوئے۔ غرض اچھا نوتہ پڑا کہ سب کو گناہ میں نوت دیا۔ اور رسمِ نوتہ کی اکثر تقریبات میں ادا کی جاتی ہے جس میں علاوہ مفاسد مذکورہ کے یہ خرابی ہے کہ حسبِ قاعدہ ’’اَلْمَعْرُوْفُ کَالْمَشْرُوْطِ‘‘ یہ تو طے ہوگیا کہ یہ قرض ہے اور بلاضرورت قرض لینا ممنوع ہے، اور نوتہ میں کچھ ضرورت نہیں ہوتی۔ ثانیاً