ویا شفاء المدنف الخلیل
رضاک أشہی إلی فؤادي
من رحمۃ الخالق الجلیل
جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اپنے معشوق کو خطاب کرکے کہتا ہے کہ تیری رضامندی نَعُوْذُ بِاللّٰہِ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بھی زیادہ مرغوب ہے۔ ایک شخص کہنے لگا کہ کم بخت! خدا سے ڈر، کیا کہتا ہے، کہنے لگا: جوکچھ ہونا تھا ہوچکا۔ ناصح اٹھ کر دروازہ تک نہ پہنچا تھا کہ اس کی روح قبض ہوگئی۔
ایک اورحکایت ہے کہ مصرمیں ایک شخص مسجد میں رہتا تھا، اور اذان و نماز میں لگا رہتا
تھا، اور اس کے چہرے پر نورِ عبادت چمکتا ۔ ایک روز اذان کہنے کے لیے مینار پر چڑھا، اس
مینارہ کے نیچے ایک نصرانی کا گھر تھا، اس کی دختر پر نظر پڑگئی اور عاشق ہوگیا اور اذان چھوڑ چھاڑ نیچے اترا اور اس کے گھر پہنچا، لوگوں نے دریافت کیا کہ کیا بات ہے اور کیا چاہتاہے؟ اس شخص نے اپنا حال بیان کیا اورکہا کہ میں اس لڑکی کو چاہتا ہوں۔ لڑکی نے جواب دیا کہ تو مسلمان، میں نصرانی، میرا باپ تجھ سے ہرگز نکاح نہیں کرسکتا۔ کہنے لگا کہ اگر نصرانی ہوجاؤں ؟! اس نے کہا: اس وقت ممکن ہے۔ یہ شخص نکاح کی امید میں نصرانی ہوگیا۔ ابھی نکاح نہیں ہوا تھا کہ کسی کام کے لیے کوٹھے پر چڑھا وہاں سے اتفاقًا گرا ا ور مرگیا۔ خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃُ۔
یہ آفتیں عشقِ صورت1 کی ہیں۔ اکثر لوگ اس بلا کو خفیف سمجھتے ہیں اور بعضے اس کو نَعُوْذُ بِاللّٰہِ! موجبِ قربِ الٰہی وآئینۂ مشاہدئہ جمالِ حقیقی جانتے ہیں، جو سراسر الحاد2 و زندیقی کا اعتقاد ہے۔ اور بزرگوں کے بعض کلام سے جو سند پکڑتے ہیں اس کے کچھ معنی نہیں سمجھتے۔
۹۔ بعضے بلکہ اکثر ناچ کرانے والے اس کو سبب ناموری اور آبرو کا جانتے ہیں اور اس کے نہ ہونے کو موجبِ اہانت وبے رونقی شادی کا سمجھتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب گناہ پر آدمی فخر کرنے لگے اور اس کے نہ ہونے کو بے عزتی سمجھے تو اس میں گناہ کا استخفاف3 بلکہ استحسان4 لازم آتاہے، جس کو ۔ُعلما نے موجبِ زوالِ ایمان فرمایا ہے۔
۱۰۔ اس میں مال خوب دل کھول کر بربادکرتے ہیں اور قرآن وحدیث میں اسراف کرنے کی حرمت اور وعید موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’بے ہودہ اڑانے والے شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے‘‘۔ یعنی اس شخص نے بڑی ناشکری اور بے قدری نعمت کی کی کہ اس کو اس طرح برباد وتلف کیا۔