ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
بھی نہیں پوچھتا کہ واپس ہو گی یا نہیں بلکہ واپس ہی کر دیتا ہوں پھر اگر ان کا ارادہ واپس لینے کا نہ ہو تو واپسی کے وقت بھی تو دے سکتے ہیں پوچھنے میں تو یہ احتمال ہے کہ دراصل تو خیال واپس لینے کا ہو لیکن پوچھتے وقت اس ارادہ کو ظاہر کرتے ہوئے شرمادیں اور بادل نخواستہ رکھ لینے کے لئے کہہ دیں چنانچہ ایک مرتبہ ریواڑی کے سفر میں یہ میرا خیال صحیح ثابت ہوا ۔ ایک صاحب نے مجھے ایک چھوٹی سی مستعمل کلہیا میں گہی دیا ۔ میں نے ساتھیوں سے کہا اس کلہیا کو خالی کرکے واپس کرو ۔ انہوں نے کہا کہ یہ تو بہت سی معمولی سی کلہیا ہے اس کا کیا واپس کرنا میں نے کہا کہ واہ اس کی قدر تو عورتوں سے پوچھو بہت سا گھی تو پی کر یہ چکنی ہوئی ہے نئی کلہیا پھر اتنا ہی گھی پی کر چکنی ہوگی ۔ چنانچہ بعد کو گھی دینے والے نے اس کی تصدیق کی کہ واقعی میرے گھر والوں نے مجھ سے تاکید کردی تھی کہ کلہیا ضرور واپس لے آنا وہیں مت چھوڑ آنا لیکن میری ہمت نہ ہوئی کہ ایسی معمولی سی چیزوں کو کیا واپس لوں ۔ دیکھئے میرا معمول کیسا کام آیا غرض اصول ہمیشہ قابل رعایت ہیں جو شخص اصول صحیہ کی ہمیشہ پابندی کرنے کا عادی ہوگا اس کو کبھی پچھتانا نہ پڑے گا ۔ (ملفوظ 58) کان پور میں ایک عالم کو امیر ہلال مقرر کرنا فرمایا کہ جب میں کانپور میں تھا تو وہ وقت ایسا تھا کہ وہاں کے مختلف علماء میں باوجود اختلاف مشرب کے اتنی تہذیب تھی کہ اگر کوئی شخص کسی مولوی کے پاس کوئی مسئلہ پوچھنے آتا تو وہ کہہ دیتا کہ فلاں مولوی صاحب سے جا کر پوچھو یہاں تک کہ ایک شخص نے تنگ آکر ایک مولوی صاحب سے کہا کہ بس جی جب کوئی مولوی مسئلہ نہیں بتاتا دوسرے ہی سے پوچھنے کو کہہ دیتا ہے تو اب میں پادری صاحب سے جا کر مسئلہ پوچھوں گا ۔ جب میں نے یہ رنگ دیکھا کہ لوگ پریشان ہوتے ہیں بالخصوص رویت ہلال کے متعلق جس کے فیصلہ کی