ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
استغنٰی وکذب بالحسنٰی فسنیسرہ للعسٰری میں بھی تقابل ہوگا اور استغنٰے کے معنے ہیں بے فکری تو اتقی کے معنے ہوں گ فکر ۔ اور یہی حاصل ہے کٹھک اور خوف کا جو لغوی معنے ہیں تقوی کے اور وہ ہمیشہ مقدم ہوتا ہے ہدایت پریس کوئی اشکال نہیں رہا ۔ نوٹ از جامع ۔ مین ناظرین سے معافی چاہتا ہوں کہ کچھ تمہید میں خیال ظاہر کیا گیا تھا اس کو میں پورا نہ کرسکا اور اکثر حصہ لکھنو کے ملفوظات کا صاف نہ کر سکا اور اب چونکہ ان کو ضبط کئے عرصہ ہوگیا اس لئے ان کے صاف کرنے کی اب نہ ہمت ہے نہ توقع لہذا اس ملفوظ پر اس مجموعہ تعلیم اود کو ختم کیا جاتا ہے ۔ ( ملفوظ 145 ) کلام میں اعتدال کی ضرورت حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب نانوی توی رحمتہ اللہ علیہ کے تذکرہ کے سلسلہ میں مولانا کا تقلیل کلام کے متعلق یہ ارشاد نقل فرمایا کہ تقلیل کلام خود مقصود نہیں بلکہ مقدمہ مقصود ہے تو اعتدال ہے لیکن جس کو کثرت کلام کی عادت پڑی ہوئی ہو اس کو اعتدال تک عادۃ قدرت حاصل نہیں ہوتی جب تک کہ کثرت کلام کے مقابلہ میں تقلیل کلام مبالغہ کے ساتھ نہ اختیار کرے بس محض اس مصلحت سے تقلیل کلام تجویز کیا جاتا ہے اس کی مثال مولانا نے عجیب دی فرمایا کہ اگر کسی کاغذ میں مڑے رہنے کی وجہ سے بل پڑگیا ہو اور اس کو ہموار کرنا چاہیں تو کاغذ کی خاصیت یہ ہے کہ اسی صورت میں جب تک اس کو دوسری طرف پوری طرح نہ موڑا جاوے اس کابل نہیں نکلتا اور ہموار نہیں ہوتا تو گو دوسری طرف موڑنا مقصود نہیں بلکہ مقصود ہموار کرنا ہے لیکن چونکہ ازروئے خاصیت وہ اس وقت تک ہموار نہیں ہوتا جب تک جانب مخالف میں اس کو نہ موڑا جائے اس لئے ایسا کرنے کی ضرورت واقع ہوتی ہے سبحان اللہ کیا اچھی بات ہے تو تقلیل کلام سے خود تقلیل مقصود نہیں بلکہ اعتدال مقصود ہے اور تقلیل اس کی تدبیر ہے اور میرے ذوق میں اس تقلیل