ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
بمشکل اور بہت اصرار پر تو ایک والئی ملک کو مرید کیا لیکن یہ شرط لگادی کہ نہ کبھی کوئی ہدیہ بھجیں نہ کبھی یہاں آئیں ۔ والی ملک تو بڑی چیز ہے اب تو کوئی گاؤں کا چودھری بھی مرید ہوجائے تو پیر صاحب مارے خوشی سے پھولے نہ سمائیں کہ میاں اور کچھ نہیں تو سال بھر کا غلبہ ہی گاؤں سے آجایا کرے گا ۔ ( ملفوظ 140 ) بکاء قلب مقصود ہے جن احوال وکیفیت کا ملفوظ بالا کے شروع میں ذکر ہے ان کے متعلق یہ بھی فرمایا کہ ایک دوست نے مجھے دہلی سے خط لکھا کہ اس کا مجھے بڑا رنج ہے کہ مجھ کو رونا نہیں آتا ۔ میں نے انہیں لکھا کہ یہ جو نہ رونے پر رنج ہے یہ بکاء قلب ہے اور بکاء قلب ہی مقصود ہے بکاء عین مقصود نہیں اور وہ آپ کو حاصل ہے جس پر خدا کا شکر کیجئے ۔ اس سے ان کی بالکل تسلی ہوگئی ۔ اھ ۔ پھر فرمایا کہ لوگوں نے رونے کے مقصود ہونے کے متعلق اشعار بھی یاد کر رکھے ہیں مثلا درپس ہر گریہ آخر خندہ ایست مرد آخر بین مبارک بندہ ایست لیکن سب جگہ بکاء قلب ہی مراد ہے بکاء عین مراد نہیں اگر یہ نہ ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے ہیں فان لم تبکوا فتباکوا بلکہ بجائے تبا کوا کے بکاء کی تدبیر ارشاد فرماتے ۔ پھر فرمایا کہ اس رستہ میں بڑے بڑے گڑھے ہیں ۔ ہر قدم پر ایک گڑھا ہے ان ہی کو حضرت حافظ شیرازی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں درراہ عشق وسوسہ اہرمن بسی ست ہشدار وگوش رابہ پیام سروش دار ان ہی وساوس میں یہ شکایت بھی داخل ہے کہ عبادت میں لذت نہیں آتی رونا نہیں آتا اس لئے ان سب کو قطع کرنا چاہئے کیونکہ ان سے مایوسی پیدا ہوتی ہے اور مایوسی اس طریق میں سب سے بڑھ کر مانع ہے پھر دوسرے مصرعہ