ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
(ملفوظ 29) حدیث سے تاویل کا ثبوت سلسلہ کلام فیض التیام فرمایا کہ ایک اہل حدیث نے مجھ سے کہا کہ حضرت حافظ شیرازی رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ ہما کے کلام کی جو توجہیات وتاویلات کی جاتی ہیں اس کی ضرورت ہی کیا ہے ۔ جو کلام ظاہرا قرآن وحدیث کے خلاف ہو وہ بہرحال قابل رد ہے ۔ میں نے کہا ایک حدیث کی وجہ سے تاویل کی ضرورت ہے وہ اس پر چونکے اور کہا کہ حدیث میں ان کا ذکر کہاں ۔ میں نے کہا کہ حدیث میں ہے ۔ انتم شہداء اللہ فی الارض یہ حضور نے اس وقت فرمایا تھا جب دو شخصوں کے بارے میں جن کا قریب ہی زمانہ میں انتقال ہوا تھا لوگ اظہار خیال کر رہے تھے ان میں سے ایک کی تو اکثر لوگ تعریفیں کر رہے تھے اور ایک کی برائیاں پہلے کے متعلق حضور نے ارشاد فرمایا کہ وہ جنتی ہے اور دوسرے کے بارے میں فرمایا کہ وہ دوزخی ہے اور اس کی وجہ یہ فرمائی کہ اتنم شہداء اللہ فی الارض یعنی تم اللہ تعالٰی کی طرف سے دنیا میں شاید ہو ۔ مطلب حضور کا یہ تھا کہ چونکہ ایک شخص کی تو تم تعریفیں کر رہے تھے اس لئے یہ علامت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی وہ اچھا تھا اور جس کی برائی کر رہے تھے یہ اس کی علامت ہے کہ وہ خدا کے نزدیک بھی برا تھا ۔ اھ مگر قواعد کلیہ سے یہ سمجھنا چاہئیے کہ اچھا اور برا کہنا معتبر نہ ہوگا ۔ تو بس اسی حدیث کی بناء پر تم جامع مسجد کے دروازہ پر جا کر کھڑے ہو جاؤ اور جو نمازی نکلتے جائیں ان میں ایک ایک سے پوچھو کہ حضرت مولانا رومی اور حضرت حافظ شیرازی کے متعلق مثلا تمہاری کیا رائے ہے تم انہیں کیس سمجھتے ہو ۔ پھر یہ دیکھو کہ ان حضرات کی تعریف کرنے والے