ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
میں صاحب الرائے ہوں ۔ بخلاف اس کے عبداللہ بن سعد ابی سرح سے حضور نے بوقت نزول وحی یہ آیت لکھوانی شروع کی ولقد حلقنا الانسان من سللۃ من طین ثم جعلناہ نطفۃ فی قرار مکین ثم خلقنا النطفۃ علقۃ فخلقنا العلقۃ مضغۃ فخلقنا المضغۃ عظاما فکسونا العظام لحما ثم انشاہ ناہ خلقا آخرہ فتبارک اللہ احسن الخالقین جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت کو ثم انشاناہ خلقا آخر تک لکھوا چکے تو فورا اس کے منہ سے بیساختہ نکلا فتبارک اللہ احسن الخالقین حضور نے ارشاد فرمایا کہ اکتب ھکذا انزل یعنی وحی بھی یہی ہے یہی لکھدو ۔ بس اس پر اس کو یہ گمان ہوگیا کہ مجھ پر بھی وحی نازل ہوتی ہے اور مرتد ہوگیا ۔ دیکھئے مطابقت وحی پر وہ تو مرتد ہوگیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ ساری عمر غلام رہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر حق تعالٰی نے اس حقیقت کو منکشف فرما دیا کہ میرے قلب پر جو وارد ہوا ہے وہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے سینہ مبارک میں فائض ہوا ہے کیونکہ حضور دونوں علم جامع تھے جس میں کبھی ایک تو ترجیح ہوجاتی تھی اور دوسرا علم کسی خادم پر آپ ہی کے سینہ سے فائض ہو جاتا اور اس خادم کے نزدیک اس کو ترجیح ہوجاتی تھی سو آپ ہی کا ایک علم آپ ہی کے دوسرے علم پر راجح ہو جاتا تھا ۔ تو حضرت عمر پر یہ راز ظاہر ہوگیا اور سمجھ گئے کہ میرا اس میں کیا کمال ہے اور عبداللہ بن سعد بن ابی سرح پر یہ حقیقت منکشف نہ ہوئی اور گمراہ ہوگیا غرض بڑوں سے بھی اگر کسی امر میں اختلاف کیا جائے تو وہ علی الاطلاق مذموم نہیں اگر نیت اچھی ہو تو اس کا بھی مضائقہ نہیں ہاں اگر بڑے اس سے بھی روک دیں تو پھر کچھ نہ بولو اور جب تک ان کی اجازت ہو خوب بولو ۔ غرض دین کا معاملہ بھی اللہ تعالٰی نے عجیب اور غامض بنایا ہے ۔ (ملفوط 5 ) کا تبان وحی معین تھے ملفوظ سابق کے اس جزو کے متعلق کہ حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم