ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
(مفلوظ 152) استخارہ کا مقصود تردد رفع کرنا ہے ایک اہل علم و فضل نے عرض کیا کہ طبقات شافعیہ میں استخارہ کے متعلق ایک بہت بڑے عالم کی (جن کا نام جامع کو یاد نہیں رہا ) عجیب تحقیق نظر سے گذری وہ کہتے ہیں کہ یہ جو عام طور پر مشہور ہے کہ استخارہ سے مقصود استنجبار ہے یہ صحیح نہیں یعنی استخارہ کا مقصد یہ نہیں کہ ہم کو جو کسی کام میں تردد ہو رہا ہے کہ یہ کام ہمارے لئے خیر ہے یانہیں استخارہ کرنے سے یہ تردد ہوجائے گا اور ہم کو معلوم ہو جائے گا کہ یہ کام ہمارے لئے خیر ہے یا شر ۔ پھر جو خیر ہوگا اس کو اختیار کریں گے چنانچہ ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ بعض اوقات استخارہ کے بعد بھی وہ تردد رفع نہیں معلوم ہوتا کہ ان دونوں باتوں میں سے کونسی بات مفید ہے تو اس صورت میں لازم آتا ہے کہ استخارہ موضوع ہوا تھا واسطے رفع تردد کے اور تردد رفع ہوا نہیں تو نعوذ باللہ شارع کا یہ حکم گویا عبث ہی ہوا اور شارع کی طرف سے کبھی ایسی بات کا حکم نہیں ہوسکتا جو عبث ہو تو معلوم ہوا کہ استخارہ کا یہ مقصود نہیں کہ کوئی بات اس کے ذریعہ سے معلوم کر لی جاوے جس سے تردد رفع ہو اور اس کام کی دونوں شقوں میں سے ایک شق کی ترجیح ضرور قلب میں آجائے پھر اسی راجح جانب پر عمل کیا جاوے بلکہ استخارہ کی حقیقت یہ ہے کہ استخارہ ایک دعاء ہے جس سے مقصود صرف طلب اعانت علی الخیر ہے یعنی استخارہ کے ذریعہ سے بندو خدا تعالٰی سے دعا کرتا ہے کہ میں کچھ کروں اسی کے اندر خیر ہو اور جو کام میرے لئے خیر نہ ہو وہ کرنے ہی نہ دیجئے ۔ بس وہ استخارہ کر چکے تو اس کی ضرورت نہیں کہ سوچے کہ میرے قلب کا زیادہ رجحان کس بات کے اندر اپنے لئے خیر کو مقدر سمجھے بلکہ اس کو اختیار ہے کہ دوسرے مصالحہ کی بناء پر جس بات میں ترجیح دیکھے اسی پر عمل کرے اور اسی کے