تصوف ایک تعارف |
صوف پر چ |
|
مفہوم اخذ کرلیتے ہیں بس اسی کو حرف آخر سمجھ کر قرآن وحدیث کا درجہ دیدیتے ہیں ، حالانکہ یہ ان کا قصورِ فہم تھا ، اس ذہنی طغیان نے نہ جانے کتنے حقائق وعلوم کو فنا کرکے رکھ دیا ہے ۔ اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ آدمی مشائخ اور صوفیہ کی زبان نہیں سمجھتا ، یہ حضرات کوئی لفظ بولتے ہیں اور اس کا کوئی مخصوص معنی ان کے نزدیک متعین ہوتا ہے ، لیکن پڑھنے اور سننے والا اس کا اصطلاحی معنی نہیں جانتا وہ اس لفظ کو اس کے لغوی یا عرفی معنی میں مراد لے لیتا ہے اور غلط فہمی کا شکار ہوجاتا ہے ، ایسی غلطیاں ہر فن میں غیر اہل فن سے ہوتی رہتی ہیں اور اہل علم ان کی تصحیح کردیا کرتے ہیں مگر اہل تصوف پر اس باب میں بہت ظلم ہوا ہے ، لوگ تصوف کے حقائق ومسائل سے عموماً آگاہ نہیں ہیں یہ لوگ تصوف کی اصطلاحات کو کسی اور معنی میں لے کر اس کی تردید کرنے لگ جاتے ہیں ۔ اس لئے خوب غور کرلینا چاہئے کہ محققین صوفیاء ومشائخ جنھوں نے اپنی تمام تر زندگی اپنے سارے اوقات اور اپنا دل ودماغ ، جسم واعضاء اور ذہانت وذکاوت بلکہ تمام راحت وآرام رضاء الٰہی کے لئے قربان کردیا ہے ، ان کی زبان وقلم سے نکلا ہوا کوئی علم آسان نہیں ہے کہ رد کیاجائے ، اگر کہیں اشکال ہوتو رد کرنے سے پہلے غور وتامل سے اس کا مطلب سمجھ لینا چاہئے ، اہل فن سے پوچھ لینا چاہئے تاکہ اس کے سمجھنے میں کوئی قصور واقع نہ ہو ، پھریہ بھی دیکھ لینا چاہئے کہ قرآن و حدیث کی جس نص سے یا قاعدے سے ہم اسے رد کررہے ہیں اس کا بھی وہی مفہوم ہے جو ہم نے سمجھا ہے ، جب اس کا خوب اطمینان ہوجائے اور علماء فن سے اس کی تصدیق ہوجائے تب رد کرنے میں کوئی حرج نہیں اور نہ ان حضرات کے مقابلے میں اپنے کو قصور فہم اور قلت تتبع کے ساتھ متہم کرنا زیادہ مناسب ہے ، مخلص اہل علم کو اس کا خوب تجربہ ہے کہ بعض اوقات قرآن واحادیث کے ظاہر سے ایک مفہوم ذہن میں آتا ہے ، مگر جب کوئی محقق اور دقیقہ رَس صاحب علم اس کا صحیح مفہوم بیان کرتا ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ جو کچھ پہلے سمجھا گیا تھا وہ کس قدر بے بنیاد تھا ۔ واﷲ الموفق ٭٭٭٭٭