تصوف ایک تعارف |
صوف پر چ |
|
بغدادی کے پاس کوئی آدمی بیس سال رہا اور ایک روز عرض کیا کہ حضرت اتنی مدت میں مجھے آپ سے کچھ حاصل نہیں ہوا وہ شخص اپنی قوم کا سردار اور برادری میں ممتاز تھا ، آپ سمجھ گئے کہ اس کے دل میں بڑائی ہے فرمایا اچھا ایک کام کرو اخروٹوں کا ایک ٹوکرا بھر کر خانقاہ کے دروازے پر بیٹھ جاؤ اور پکارو کہ جو شخص مجھے ایک جوتا مارے گا ، اس کو ایک اخروٹ دوں گا اور جو دو مارے گا تو دو دوں گا ، اسی طرح زیادہ کرتے چلے جاؤ ، جب یہ کام کر چکو اور اخروٹ کا ٹوکرا خالی ہوجائے تب میرے پاس آؤ ، اس شخص نے کہا لا الٰہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ ، حضرت یہ کام تو مجھ سے نہ ہوسکے گا ۔ حضرت جنید نے فرمایا کہ یہ وہ مبارک کلمہ ہے کہ اس کو ستر برس کا کافر صدق دل سے ایک مرتبہ پڑھ لے تو واللہ مسلمان ہوجائے گا مگر تو اس وقت اس کے پڑھنے سے کافر طریقت ہوگیا۔ جا نکل جا ، تجھے مجھ سے کچھ حاصل نہ ہوگا ۔(’’تذکرۃ الرشید‘‘ ج:۲ص: ۱۳) بزرگوں سے جو مجاہدات منقول ہیں ، اگر ان میں ہمارے ذکر کردہ اس نکتے سے صرف نظر کرلیا جائے تو آدمی اعتراضات کی وادی میں جاگرے گا اور محروم ہوگا ، نگاہوں کے اس قصور نے بڑی محرومیاں پیدا کی ہیں ۔ اور بڑے فتنے اٹھائے ہیں ۔ اللھم انا نعوذ بک من الفتن ما ظھر منھا وما بطن ۔ ٭٭٭٭٭