تصوف ایک تعارف |
صوف پر چ |
|
ان الذین یبایعونک انما یبایعون اﷲ ید اﷲ فوق ایدیھم (سورہ فتح) جو لوگ تم سے بیعت کرتے ہیں وہ در حقیقت اللہ سے بیعت کرتے ہیں ۔ اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھ کے اوپر ہے ۔ بیعت کی شکل کیا ہوتی ہے ؟ اس کی وضاحت درج ذیل حدیث سے ہوتی ہے ۔ عن عوف بن مالک الاشجعی قال کنا عندالنبی ﷺ تسعۃ او ثمانیۃ او سبعۃ فقال الا تبایعون رسول اللہ ﷺ فبسطنا ایدینا و قلنا علی ما نبایعک یا رسول اللہ قال علی ان تعبدوااللہ ولا تشرکوا بہ و تصلوا الصلوات الخمس و تسمعوا و تطیعوا ۔ (مسلم ابوداؤد ونسائی ) عوف بن مالک اشجعی فرماتے ہیں کہ ہم لوگ نبی کریم ا کی خدمت میں حاضر تھے ۔ نو آدمی تھے ، یا آٹھ یا سات آدمی آپ نے ارشاد فرمایا کہ تم اللہ کے رسول سے بیعت نہیں کرتے ، ہم نے اپنے ہاتھ پھیلادئیے ، اور عرض کیا کہ کس امر پر بیعت کریں ۔ یا رسول اللہ ! آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالی ٰکی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک مت کرو اور پانچوں نمازیں پڑھو اور احکام سنو اور مانو۔ حکیم الامت تھانوی ؒ اس پر تحریر فرماتے ہیں : ’’حضرات صوفیا ء کرام میں بیعت کا معمول ہے ،جس کا حاصل التزام احکام ( یعنی احکام ظاہری و باطنی پر استقامت) اور اہتمام کا معاہدہ ہے ، جس کو ان کے عرف میں بیعت طریقت کہتے ہیں ،بعض اہل ظاہر اس کو اس بنا پر بدعت کہتے ہیں کہ حضور اکرم ا سے منقول نہیں ہے ۔ صرف کافروں کو بیعت اسلام اور مسلمانوں کو بیعت جہاد کرنا معمول ہے ،مگر اس حدیث میں صریح اثبات موجود ہے ، کہ یہ مخاطبین چونکہ صحابہ ہیں ، اس لئے یہ بیعت اسلام یقیناً نہیں ہے کہ تحصیل حاصل لازم آتا ہے اور مضمون بیعت سے ظاہر ہے کہ بیعت جہاد بھی نہیں ہے ۔ بلکہ بدلالت الفاظ معلوم ہوتا ہے کہ التزام واہتمام اعمال کیلئے ہے ۔ پس اس کے سنت ہونے میں کوئی شبہہ نہیں ۔ بعدہ بوجہ اشتباہ بیعت خلافت کے سلف نے صحبت پر اکتفا کیا، پھر خرقہ کی رسم بجائے بیعت کے جاری