تصوف ایک تعارف |
صوف پر چ |
|
کے دماغ میں کچھ سوچنے کی صلاحیت ہے وہ بیتاب ہے کہ کسی طرح اپنے نتائج افکار کو خواہ وہ بالکل بودے اور عقل و فہم سے بعید ہوں ، منظر عام پر پیش کرے۔ ان افکار میں اگر کوئی خوبی ہوتی ہے تو بس یہ کہ وہ نئی چیزیں سامنے لاتے ہیں جن کا سلف میں ذکر بھی نہ ہو۔ حضرت معاذ بن جبل ص کا ارشاد ہے کہ قرآن شریف لوگوں میں عام ہوجائے گا، اسے عورتیں بھی پڑھیں گی مرد اور بچے بھی پڑھیں گے اس وقت کوئی آدمی سوچے گا کہ میں نے قرآن پڑھ لیا لیکن میری پیروی نہیں کی جاتی پھر اس پر عمل کا اہتمام کرے گا، تب بھی اس کی پیروی نہیں جائے گی ۔ پھر وہ اپنے گھر میں مسجد بناکر عبادت میں لگ جائے گا ، پھر بھی اس کی پیروی نہ کی جائے گی ، اب وہ اپنے دل میں کہے گا کہ میں نے قرآن پڑھا اور کسی نے مجھے اہمیت نہ دی ، کہ میرا اتباع کرتا ، میں نے اس پر عمل کیا پھر بھی میں مقتدا نہ بنا ، پھر میں نے اپنے گھر کو مسجد بنا ڈالا تب بھی کوئی میرے پیچھے چلنے والا نہ نکلا ، اچھا اب میں نئی تحقیقات اور نئی باتیں پیش کروں گا ، ایسی تحقیقات اور ایسی باتیں جو نہ اللہ کی کتاب میں ہوں اور نہ انہوں نے اللہ کے رسول سے سنا ہوگا، شاید اس سے میری اہمیت ہو، اور میری پیروی کی جائے ۔ حضرت معاذ ص نے فرمایا کہ خبردار اس کی باتوں پر دھیان نہ دینا،وہ گمراہی ہے ۔ ( جمع الفوائد ج:۱ص:۶۲ بحوالہ د ارمی) ہم دیکھتے ہیں کہ آج یہی جذبۂ تجددہے اوریہی ہوس مقتدائیت ہے ، جو لوگوں کی زبان و قلم سے نئی نئی تحقیقات اور نئی نئی باتیں نکلواتی رہتی ہے ۔ پھر یہ بھی بکثرت ہوتا ہے کہ لوگ سرسری طور پر کتب احادیث و تفسیر کی ورق گردانی کرکے ہمہ دانی کے زعم میں مبتلا ہوجاتے ہیں ،اور ان سے جو کچھ اپنی ا ستعداد کے مطابق الٹے سیدھے مطالب اخذ کر لیتے ہیں ، ان کو اسلاف کی کتابوں اور ان کی زندگیوں میں تلاش کرنے لگتے ہیں ، اور جب وہ اپنی فہم کے لحاظ سے ان کے مطابق نہیں پاتے یا کچھ کم و بیش دیکھتے ہیں تو ان پر زبان طعن دراز کرنے لگتے ہیں ۔ یہ بات ہم علم و عمل کے ہر شعبے میں بہت عرصے سے دیکھ رہے ہیں لیکن اس باب