تصوف ایک تعارف |
صوف پر چ |
|
الامت نے دل جوئی ودلداری کے مد نظر قبول فرمایا۔ حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب کا باوجود کمال علم و فضل کے کیا حال ہوا، اور پوری زندگی کس حال میں گزاری، اس کی تعبیر ہم بطور خود کرنا چاہیں ، تو شاید نہ کرسکیں ، مولانا عاشق الٰہی میرٹھی نے تذکرۃ الرشید میں حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی قدس سرہ کے حالات میں جوفقرہ لکھا ہے، اسے ہم نقل کرتے ہیں ، غالباً اس فقرے سے حضرت مولانا کے حال کی بھی ترجمانی ہوتی ہے، مولانا میرٹھی لکھتے ہیں ۔: ’’ حضرت مولانا (رشید احمد) قدس سرہٗ فرمایا کرتے تھے کہ جب اعلیٰ حضرت (حاجی امداد اﷲ صاحب) کے دست مبارک پر بیعت ہونے کا وقت آیا، تو میں نے عرض کیا حضرت مجھ سے ذکر و شغل اور محنت ومجاہدہ کچھ نہیں ہوسکتا اور نہ رات کو اٹھا جائے اعلی حضرت نے تبسم کے ساتھ فرمایا اچھا کیا مضائقہ ہے؟ اس تذکرہ پر کسی خادم نے دریافت کیا کہ حضرت پھر کیا ہوا؟ تو آپ نے جواب دیا، اور عجیب ہی جواب دیا، کہ پھر تومرمٹا۔ (تذکرۃ الرشید ج۱/۴۸) حضرت مولانا میرٹھی اس فقرہ کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’ پھر تومرمٹا‘‘ صفحۂ ہستی پر آبِ زر سے لکھنے اور لوح دل پر قلم اذعان سے کندہ کرنے کے لائق ہے، حقیقت میں حضرت مولانا اس کے بعد مرمٹے، آپ نے رہتے نفس کو ماردیا، ہوائے نفس کو ملیامیٹ کردیا، جس پاک نام کے سیکھنے کا قصد کیا تھا اس میں کھپ گئے، فنائیت حاصل کی، اور اس پر اکتفا نہیں کیا بلکہ فنا عن الفناء پر پہونچے کہ اپنی فنائیت سے بے خبر اور فانی محض بن گئے (ص۴۹) حضرت اقدس تھانوی قدس سرہ کے آستانہ پر حضرت مولانا کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہوا ’’مرمٹے‘‘ دین وایمان پر مرمٹے، محبت الٰہی میں مرمٹے، کمال علم اور وفور ذہانت کے باوجود ایسا مرمٹے جیسے کچھ نہ ہوں ، اس فنائیت نے کہاں تک پہونچایا ہوگا، کسے خبر ہے؟ اتنا تو جانتے ہیں کہ عاشق فنا ہوا اور اس سے آگے بڑھ کے خدا جانے کیا ہوا