تصوف ایک تعارف |
صوف پر چ |
|
ہے۔ پھر جتنے قصور وار یہ ہیں ،ان سے کم قصوروار وہ بھی نہیں ہیں جو تصوف کے نام پر ہر خرافات کو مستحسن ،ہر بدعت کو واجب قرار دے کر تصوف کی غلط نمائندگی کرتے ہیں ۔خیر یہ تو ایک لمبی داستان ہے اور الگ موضوع ہے۔ مجھے یہ عرض کرنا تھا کہ جس طرح ظاہری احکام شرع کی بجاآوری ضروری ہے لیکن انہیں روبہ عمل لانے کے لئے کسی خاص طریقے کی تحدید نہیں کی گئی ہے ۔بس کچھ اصولی باتیں طے کردی گئی ہیں ۔کچھ جائز و ناجائز کی حد بندی کردی گئی ہے ۔کچھ سنن و مستحبات کے دائرے بنادیئے گئے ہیں ۔انہیں بنیادی اصولوں اور انہیں حدود و دوائر میں رہ کر انسان اپنے زمانے اور ماحول کے مطابق احکام شرع کو بجا لانے کا کوئی بھی طریقہ اختیار کرسکتا ہے۔ مثلاً جہاد کرنا ایک حکم شرع ہے، پہلے اس کے لئے تیر وتفنگ شمشیر و سناں ،گھوڑے اور اونٹ کام میں لائے جاتے تھے۔ اب ان کے بجائے بندوق ،توپ ،ٹینک میزائل ،ہوائی جہاز اوردوسرے جدید ذرائع استعمال ہوتے ہیں ۔ توکیا کوئی ہوش وحواس والایہ کہہ سکتا ہے کہ تلوار اور نیزے وغیرہ منصوص ہیں ۔اس لئے وہ مسنون ہیں ۔اوریہ جدید ذرائع غیر مسنون ہیں اس لئے یہ بدعت ہیں ۔اسی طرح یہ سمجھنا چاہئے کہ دل لگانے (یعنی مرتبہ احسان)کے لئے جائز تدبیریں اختیار کی جاسکتی ہیں ۔اس میں منصوص اور غیر منصوص کو موضوع مجادلہ بنانا ذہنی اور علمی افلاس کی دلیل ہے۔بس اس میں بھی ان حدود وقیود کی رعایت ضروری ہوگی جنہیں شریعت نے بطور قواعد کلیہ کے متعین کر دیا ہے۔ ہر زمانے میں بزرگوں نے، اس فن کے ماہرین و حذاق نے، اپنے اجتہادو الہام ، فراست وروشن ضمیری اور اپنے تجربوں سے مرتبہ احسان کے حصول کے لئے کچھ طریقے اور کچھ تدبیریں متعین کی ہیں ۔ان طریقوں میں جن کا شیوع برنگ عموم ہوا،انہیں سلاسل تصوف کہا جانے لگا۔ یہ سلسلے متعدد ہیں اور ایمان والوں نے ان سے خوب نفع حاصل کیا،مگرچار بزرگوں کے سلسلے اس قوت وشوکت کے ساتھ جاری ہوئے کہ انھوں نے مستقل