تصوف ایک تعارف |
صوف پر چ |
|
’’اسیرت نخواہد رہائی زبند‘‘ تیرے گرفتار کو رہائی کی کوئی تمنا نہیں ۔ غرض احکام الٰہیہ کی پابندی اور ان کی ادائیگی دل کی دوا اور روح کی غذا بن جاتی ہے۔ پہلے جس کام کو آدمی بجبر و تکلف انجام دیتا تھا۔ اب اس کو کئے بغیر چین نہیں پڑتا۔اس کی محسوس مثال یہ ہے کہ طفل گریز پا کو اولاًزبردستی مکتب میں لاتے ہیں ، وہ بھاگتاہے ،روتا چلاتا ہے، پاؤں پٹختا ہے ، مگر جب اس کو علم کی حلاوت سے آشنائی ہوتی ہے تو علم اس کا اوڑھنا بچھونا بن جاتا ہے ۔علم اس کے رگ و ریشہ میں سما جاتا ہے ۔ اگر اسے کوئی علم سے اور علمی مشاغل سے الگ کرنا چاہے تو اسے موت نظر آنے لگتی ہے کیونکہ علم کی لذت اس کے قلب وروح میں اتر گئی ہے ، یہ مرتبۂ احسان کی مثال ہے۔ اسی احسان کو حاصل کرنے کی کوشش اور اس کی جستجو کا نام تصوف ہے ۔ تصوف شریعت کا خادم ہے ،تصوف سر جھکانے کی کیفیت کو ترقی دے کر دل لگانے کی منزل تک پہونچنے کی جان توڑجدو جہد کانام ہے ۔ اس کی کوشش ہوتی ہے کہ آدمی کو مرتبہ احسان حاصل ہوجائے۔ لوگ خوامخواہ تصوف کے نام سے بھڑکتے اور چڑھتے ہیں ، اس عملی جد وجہد کے نتیجہ میں سیکڑوں ، ہزاروں افراد کیفیت احسانی سے سرشار ہوتے تھے ۔آج ستم ظریفوں نے اس سے بھڑکا بھڑکا کر ان لوگوں کو بھی احسان کی لذت سے محروم کردیا ہے جن کی فطرتیں سلیم اور جن کی طبیعتیں احسان کی طالب و جویا ہیں ۔ ایک زمانہ تھا کہ مسجدیں چھوٹی ،کچی ، معمولی ہوتی تھیں ۔مگر ان میں نماز پڑھنے والوں کے سجدوں سے محراب ومنبر کو وجد آجاتاتھا اور آج ہے کہ مسجدیں عالیشان ، منارے بلند اور صحن مسجد خوب کشادہ ہے لیکن نمازیوں کے دل سونے ، سجدے بے روح اور چہرے بے نور ہیں ۔ بات یہ ہے کہ کیفیت احسان کے حصول وجستجو کے طریقوں کو اپنے وہمی خیالات کے زیر اثرعمل بالحدیثکی نمائش کرنے والوں نے بدعت بدعت کی پکار سے محو کرڈالا