دنیا سے اٹھا اور مسکینوں کے گروہ میں میرا حشر فرما۔
روایات میں ہے کہ دو دو ماہ تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چولہا ٹھنڈا رہتا تھا، کھجور اور پانی پر گذارا ہوتا تھا، ایک بار تیس دن رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس طرح گذرے کہ کھانے کی کوئی ایسی چیز نہ تھی جسے کوئی جاندار کھاسکے، اپنی پوری زندگی آپ نے اور آپ کے اہل خانہ نے جو کی روٹی سے بھی متواتر دو دن پیٹ نہیں بھرا۔ (بخاری وترمذی)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کے پتوں سے بنی چٹائی پر لیٹے تھے، آپ کے جسم پر چٹائی کے گہرے نشانات تھے، حضرت عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ نے درخواست کی کہ اے اللہ کے رسول! خوش حالی وفراخی کی دعا کیجئے، روم وفارس والے بڑے خوش حال ہیں ، جب کہ وہ خدا پرست بھی نہیں ہیں ، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
یا ابن الخطاب! اولٰئک قوم عجلت لہم طیباتہم فی الحیاۃ الدنیا،اما ترضیٰ ان تکون لہم الدنیا ولنا الاٰخرۃ۔ (بخاری ومسلم)
ترجمہ: اے ابن خطاب! ان کو ان کی لذتیں دنیا میں دے دی گئی ہیں ، کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ ان کے لئے دنیا کا عیش ہو اور ہمارے لئے آخرت کا عیش؟ایک روایت میں فراخی کی دعا کے مطالبہ پر آپ کا یہ جواب بھی مذکور ہے کہ:
ما انا والدنیا الا کراکب استظل تحت شجرۃ ثم راح وترکہا۔
(ترمذی شریف)
میں اس دنیا میں اس مسافر کی طرح ہوں ، جو سایہ کے لئے کسی درخت کے نیچے بیٹھ گیا ہو اور پھر اپنی منزل کی طرف چل دے۔
صلاح وتقویٰ کے ساتھ حاصل ہونے والی دولت کو بھی اللہ کی نعمت قرار دیا گیا ہے؛ بلکہ مقاصدِ حسنہ کے لئے حصولِ دولت کی فضیلت بھی آئی ہے، دولت کے حصول میں مکمل انہماک اور ضروریاتِ دین سے بے اعتنائی سے منع کیا گیا ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ اس امت کے صلاح کی