مگر پانی کی تقسیم میں ان نلوں کا کوئی دخل نہیں ہے، اس کائنات میں کار فرمائی اسباب ووسائل کی نہیں ؛ بلکہ صرف ذاتِ خداوندی اور حکم ربانی کی ہے، یہی توکل کی حقیقت ہے۔
احادیث میں وارد ہوا ہے کہ اللہ پر توکل کرنے والے بندے بلاحساب جنت میں داخل ہوں گے، دنیا میں انہیں سہولت سے روزی ملے گی، زیادہ کدوکاوش نہ کرنی پڑے گی، اللہ ان کی تمام ضرورتوں کے لئے کفایت کرے گا، اور سکونِ قلبی کی دولت سے نوازے گا، اور ان کی محنتوں کو ضائع نہیں کرے گا، اللہ کی ذات وصفات پر کامل ایمان، قدرت کے مکافاتِ عمل کے منصفانہ قانون پر یقین اور رجائیت پسندی اور ناامیدی سے دوری توکل کے اہم عناصر ہیں ۔
اپنی ذات پر اعتماد (خود اعتمادی) کامیابی وکامرانی کی ضمانت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۲۳؍سال کی مختصر ترین مدت میں جزیرۃ العرب میں جو علمی وعملی، فکری ونظری، اخلاقی واصلاحی انقلاب برپا فرمایا، اس کی کامیابی میں خود اعتمادی کا بے پناہ دخل تھا، بادِ مخالف، طوفان مصائب، حوادثِ زمانہ، مشکلات وخطرات سے مقابلہ اور قربانیاں پیش کرنے کا حوصلہ خود اعتمادی کے بغیر پیدا ہی نہیں ہوسکتا، عظمت اور رفعت کے حصول میں خود اعتمادی کا بڑا کلیدی کردار ہوتا ہے، ہر دور میں اہل ایمان کی کامیابیوں ، بلندیوں اور عظمتوں میں توکل اور خود اعتمادی دونوں کا اہم رول رہا ہے۔
مصاحبین پر اعتماد کسی بھی مشن اور دعوت کی کامیابی کے لئے شرطِ اولین ہے، اصلاحی، سیاسی، معاشرتی اور عسکری ہر میدان میں رفقائے کار پر مکمل اعتماد ضروری ہے، رفقاء میں خود اعتمادی پیدا کرنا، ان کو قابل اعتماد بنانا اور ان کے دلوں میں اپنا اعتماد راسخ کرنا بہت اہم ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معتمد تھے، ان کے دلوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مکمل اعتماد واعتقاد تھا، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں خود اعتمادی کا جوہر پیدا فرمادیا تھا، اور پھر ان کے والہانہ انداز اور سرفروشانہ جذبوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ میں ان کو بے حد قابل اعتماد بنادیا تھا، اور انہیں کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے جزیرۃ العرب کی کایا پلٹ دی تھی، نئی روح پھونک دی تھی، ہدایت کی شمعیں ہر جگہ فروزاں کردی تھیں ۔