اللّٰہ الذی خلق السمٰوات والارض وانزل من السماء مائً فاخرج بہ من الثمرات رزقاً لکم، وسخر لکم الفلک لتجری فی البحر بامرہ وسخر لکم الانہٰر، وسخر لکم الشمس والقمر دائبین، وسخر لکم اللیل والنہار، واٰتاکم من کل ما سألتموہ، وان تعدوا نعمۃ اللّٰہ لا تحصوہا۔ (ابراہیم: ۳۲-۳۴)
ترجمہ: اللہ وہی تو ہے جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا اور آسمان سے پانی برسایا، پھر اس کے ذریعہ سے تمہاری رزق رسانی کے لئے طرح طرح کے پھل پیدا کئے، جس نے کشتی کو تمہارے لئے مسخر کیا کہ سمندر میں اس کے حکم سے چلے اور دریاؤں کو تمہارے لئے مسخر کیا، جس نے سورج اور چاند کو تمہارے لئے مسخر کیا کہ لگاتار چلے جارہے ہیں ، اور رات ودن کو تمہارے لئے مسخر کیا، جس نے وہ سب کچھ تمہیں دیا جو تم نے مانگا، اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو نہیں کرسکتے۔
انسان اگر خودی کے عرفان کی کوشش کرے گا تو ان تمام حقیقتوں تک اس کی رسائی ہوگی، خدا کی وہ نعمتیں جو اس کے وجود پر ہر آن برس رہی ہیں ، اس کے دل میں شکر وعمل کے جذبات بیدار اور اس کی ذات میں مخفی صلاحیتوں کو قوت سے فعل میں لانے کی روح (Spirit) پیدا کریں گی، اور عرفانِ خودی کی بدولت اسے عرفانِ خدا کی دولت بے بہا میسر آئے گی اور فکر وعمل کی تمام پر پیچ راہوں میں حق کی سیدھی شاہراہ پر اس کے پاؤں جمے رہیں گے، اور وہ ناشکری، بے عملی اور بدعملی کی بدترین لعنتوں میں مبتلا ہونے سے محفوظ ہوجائے گا، جب کہ عرفانِ خودی کی دولت سے محرومی کے نتیجہ میں انسان معرفت رب سے بھی محروم رہ جاتا ہے، امتوں کے زوال وادبار اور غیروں کی اسیری اوردریوژہ گری کے پیچھے کار فرما سب سے اہم عامل اور سبب خودی کی معرفت سے محرومی ہے۔ زندگی، حرکت، گرمیٔ رفتار، آبرو، شاہی، سرداری اور آزادی کی تمام تر خوبیاں عرفانِ خودی کی رہین منت ہوتی ہیں ۔ اقبال نے اسی کو واضح کیا ہے: