مذکورہ بالا پانچوں گوشے امت کے ہر فرد کو ہر طرح سے اور ہر وقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم واکرام ملحوظ رکھنے کی تلقین کرتے ہیں ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان آیات واحکام پر عمل کرکے اور تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حق ادا کرکے پوری امت کے سامنے نمونہ پیش کردیا ہے۔ مثال کے طور پر اس واقعہ کا ذکر کافی ہے کہ سن ۷؍ہجری میں جب قریش نے عروہ بن مسعود کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صلح کی گفتگو کے لئے بھیجا، تو اس نے آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے دلوں میں آپ کی حیرت انگیز تعظیم کا جو نقشہ دیکھا، اس طرح بیان کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم وضو کرتے ہیں ، تو آپ کے وضو کے پانی پر خلقت ٹوٹ پڑتی ہے، آپ کا تھوک گرتا ہے تو صحابہ ہاتھوں ہاتھ لے کر اپنے چہروں اور جسموں پر مسل لیتے ہیں ، جب آپ کا کوئی بال گرتا ہے تو جلدی سے اس کو لپک لے جاتے ہیں ، جب آپ کوئی حکم دیتے ہیں تو اس کی تعمیل میں دوڑ پڑتے ہیں ، جب آپ بات کرتے ہیں تو ان پر خاموشی چھاجاتی ہے، کوئی شخص نظر بھر کر آپ کی طرف دیکھ نہیں سکتا، عروہ جب واپس ہوا، تو اس نے کہا اے گروہِ قریش! میں نے قیصر وکسریٰ اور نجاشی کے دربار دیکھے ہیں ، خداکی قسم کسی بادشاہ کو اپنی رعایا کے درمیان اتنا باعظمت وبارعب نہیں دیکھا، جتنامحمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے رفقاء کے درمیان باعظمت وبارعب دیکھا ہے۔ (بخاری شریف)
یہ واقعہ اس جذبۂ ادب واحترام کی ایک واضح مثال ہے، جو اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دلوں میں آپ کے تئیں موجود تھا، اور اسی جذبہ سے سرشاری کا ہر مسلمان کو حکم ہے اور یہی ایمانی وقرآنی مطالبہ اور تقاضا بھی ہے۔
،l،