بلایا جائے تب جایا کرو، پھر جب کھانا کھاچکو تو اٹھ کر چلے جایا کرو، اور باتوں میں جی لگاکر بیٹھے مت رہا کرو، اس بات سے نبی کو ناگواری ہوتی ہے، مگر وہ تمہارا لحاظ کرتے ہیں اور اللہ صاف صاف بات کہنے سے کسی کا لحاظ نہیں کرتا، اور جب تم ازواج مطہرات سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے باہر سے مانگا کرو، یہ بات تمہارے اور ان کے دلوں کے پاک رہنے کا ذریعہ ہے، اور تم کو جائز نہیں کہ تم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت پہنچاؤ اور نہ یہ جائز ہے کہ تم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کی بیویوں سے کبھی بھی نکاح کرو، یہ خدا کے نزدیک بڑی بھاری معصیت کی بات ہے، اگر تم کسی چیز کو ظاہر کروگے یا اس کو پوشیدہ رکھوگے تو اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جانتے ہیں ۔
اس آیت میں چار امور کی تلقین کی گئی ہے:
پہلی بات یہ ہے کہ اہل ایمان کو بلااجازت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حجروں اور مکانات میں داخل ہونے سے روک دیا گیا ہے، اور یہ واضح فرمادیا گیا ہے کہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان پر کھانے پر مدعو ہوں وہ کھانا تیار ہونے سے پہلے آکر اہل خانہ کو ضیق میں نہ ڈالیں ، کھانا پکنے کے بعد جب بلایا جائے تب آئیں ۔
دوسرا حکم یہ ہے کہ کھانے سے فراغت کے بعد لوٹ جائیں اور لمبی مجلسوں اورمذاکرہ کے ذریعہ ایذائِ رسول کے مرتکب نہ ہوں ۔
تیسرا حکم یہ ہے کہ ازواج مطہرات سے پردہ کے باہر ہی سے گفتگو کریں ، پردے کا حکم ہر مسلمان عورت کے لئے عام ہے، یہاں ازواجِ مطہرات کا ذکر خاص پس منظر کے ذیل میں آگیا ہے، گویا الفاظ خاص ہیں اورحکم عام ہے۔
چوتھا حکم یہ ہے کہ کسی مسلمان کے لئے ازواج مطہرات سے کبھی بھی نکاح جائز نہیں ہے؛ اس لئے کہ وہ ماؤں کے درجہ میں ہیں ، غور کیا جائے تو یہ سارے احکام حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے احترام وتعظیم سے متعلق نظر آتے ہیں ۔