چاہتے تھے، اور آپ سب کو وقت دے دیا کرتے تھے، ظاہر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بے حد مشغول تھی اور ہر ایک کووقت الگ سے دینا مشکل تھا، پھر بعض منافقین بلاوجہ شرارت کے لئے آپ سے خفیہ بات کرتے، کچھ سادہ لوح مسلمان غیر اہم امور کے لئے خفیہ بات کرتے اور مجلس طویل کردیا کرتے تھے۔ مروۃً حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سب کو وقت دے رہے تھے، مگر یہ چیز آپ کے لئے باعث اذیت تھی۔ خداوند قدوس نے آپ کو اس اذیت سے بچانے کے لئے ابتدائً مذکورہ آیت میں سرگوشی سے پہلے کچھ صدقہ کرنے کا حکم دیا، چناں چہ اس حکم کے آنے کے بعد سب سے پہلے حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ایک دینار صدقہ دے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سرگوشی کی، یہ حکم چند ہی دنوں کے بعد منسوخ ہوگیا اور اگلی آیت میں فرمادیا گیا کہ:
أ أشفقتم ان تقدموا بین یدی نجواکم صدقات، فاذ لم تفعلوا وتاب اللّٰہ علیکم، فاقیموا الصلاۃ واٰتوا الزکاۃ، واطیعوا اللّٰہ ورسولہ، واللّٰہ خبیر بما تعملون۔ (المجادلۃ: ۱۳)
ترجمہ: کیا تم اپنی سرگوشی سے پہلے خیرات دینے سے ڈرگئے، سو جب تم نہ کرسکے اور اللہ نے تمہارے حال پر عنایت فرمائی، تو تم نماز کے پابند رہو، اور زکوٰۃ دیا کرو، اور اللہ ورسول کا کہنا مانو اور اللہ کو تمہارے سب اعمال کی خبر ہے۔
صاحب معارف القرآن نے لکھا ہے:
’’یہ حکم اگرچہ منسوخ ہوگیا، مگر جس مصلحت کے لئے جاری کیا گیا تھا، وہ اس طرح حاصل ہوگئی کہ مسلمان اپنی دلی محبت کے تقاضہ سے ایسی مجلس طویل کرنے سے بچ گئے، اور منافقین اس لئے کہ عام مسلمانوں کے طرز کے خلاف ہم نے ایسا کیا تو ہم پہچان لئے جاویں گے اور نفاق کھل جاوے گا‘‘۔ (معارف القرآن، مولانا مفتی محمد شفیع صاحبؒ ۸؍۳۴۸)
سرگوشی سے پہلے صدقہ کی اس حکم کی حکمتوں کے ذیل میں امام رازیؒ نے تحریر فرمایا ہے کہ:
’’اس حکم کا پہلا فائدہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم اور آپ سے خفیہ