حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں آتا ہے کہ وہ کسی یتیم کو ساتھ لئے بغیر کھانا ہی نہ کھاتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک یتیم نے ایک شخص پر کھجور کے باغ کے متعلق دعویٰ پیش کیا، دعویٰ ثابت نہ ہوسکا، مدعی علیہ کو باغ مل گیا، مدعی یتیم رو پڑا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر رحم آیا، آب صلی اللہ علیہ وسلم نے مدعی علیہ سے کہا کہ یہ باغ تم اسے دے دو، جنت میں اللہ تم کو اس کا نعم البدل عطا فرمائے گا، مدعی علیہ اس پر تیار نہ ہوا، ایک صحابی حضرت ابو الدحداح رضی اللہ عنہ حاضر تھے، انہوں نے مدعی علیہ سے کہا کہ تم اپنا یہ باغ میرے باغ سے بدل لو، مدعی علیہ تبدیلی پر تیار ہوگیا، ابوالدحداح رضی اللہ عنہ نے باغ بدل کر فوراً وہ باغ یتیم کو ہدیہ کردیا۔
(الاستیعاب لابن عبد البر)
سیرت رسول وصحابہ میں اس جیسے بہت سارے نمونے ہیں ، جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت عامہ کا فیض یتیموں پر پوری طرح برسا، یتیموں کو ان کے وہ تمام حقوق ملے جو دنیا کے کسی اور مذہب اور نظریے میں تلاش کرنے سے بھی نہیں ملتے، یہ تو صرف اسلام ہے، جس نے بے کس وبے بس یتیموں کو سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر سہارا اور آسرا دیا ہے۔
،l،