ہوا کہ حق غالب آکر رہا، دین برحق ہر طرف پھیل گیا، آپ بے سروسامان تھے، سلطنت آپ کے قبضہ میں نہ تھی، مال ودولت کے خزانے آپ کے پاس نہ تھے، مگر توکل اور تقویٰ آپ کا زادِ سفر تھا، آپ نے اسلام کا علم بلند کردیا اور اپنے رب کا پیغام حق ہر گوشے میں پہنچادیا۔
آپ بے انتہا عظیم ہونے کے ساتھ ہی مصلح اعظم بھی تھے، ہر نوع کی برائیوں اور خرابیوں کو معاشرہ سے مٹانے کی سعی وکوشش آخری لمحۂ زندگی تک فرماتے رہے، اور اس کی تلقین وتاکید کرتے رہے، عدل وانصاف اور مساوات ومواسات آپ کی تعلیم کے روشن عناوین ہیں ، فقراء ومساکین کے ساتھ آپ کا معاملہ رحم وہمدردی، مدد واعانت، غلاموں کے ساتھ حسن سلوک، انہیں اللہ کی راہ میں آزاد کرنے کی تلقین، آپ کی سیرت میں واضح طور پر موجود ہے۔
روایات میں آتا ہے کہ آپ نے زمانۂ جاہلیت میں اپنے غلاموں کو آزاد فرمایا تھا، پھر بعد میں جو غلام بھی آپ کو ہدیہ میں ملے ان کو بھی آزاد فرمایا۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ:
’’اپنے غلاموں اور زیر دستوں کے بارے میں اللہ سے ڈرا کرو‘‘۔
یعنی ان کے ساتھ حسن معاملہ رکھو، ظلم، بد سلوکی اور طاقت سے زائد بوجھ ڈالنے کا گناہ مت کرو۔
اس معاشرے میں جہالت عام تھی، آپ نے علم کی روشنی پھیلائی، علم کی طلب کو ہر مسلمان پر فرض قرار دیا، واضح کردیا کہ علم زندگی اور جہالت موت ہے، اہل علم اور جاہل برابر نہیں ہوسکتے۔ بدر کے قیدیوں کی رہائی کا عوض یہ بھی قرار دیا کہ وہ جاہل مسلمانوں کو پڑھنا لکھنا سکھادیں ، فرمایا: ’’اپنے بچوں کو علم سکھاؤ؛ کیوں کہ وہ تمہارے زمانے کے لئے نہیں اگلے زمانے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں ‘‘۔
اس ماحول میں یتیم سب سے زیادہ مظلوم تھا، تربیت کے نام پر اس کا استحصال ہوتا تھا، آپ نے اس پہلو پر خاص توجہ دی، آپ نے یتیموں کے ساتھ بدمعاملگی کو بہت خطرناک جرم