دعائے مغفرت کرے:‘‘السَّلَامُ عَلیٰ أَهْلِ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَیَرْحَمُ اللہُ الْمسُتْقدِمِیْنَ مِنَّا وَالْمُسْتَاْخِرِیْنَ وَاِنّا انِ شَآءَ اللہُ بِکُمْ لَلَا حِقُوْنَ ’’
(۹۰) شہداء احد کی بھی زیارت کرے،اور وہی الفاظ سے سلا م پڑھے جو جنت البقیع کے بیان میں گزرے۔
(۹۱) راستے میں تھوکنے سے پرہیز کرے۔ اور کوڑا وغیرہ نہ ڈالے ،کیونکہ یہ نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا شہر مبارک ہے ۔
(۹۲) اورراستے سے تکلیف دہ چیزہٹادے،کیونکہ یہ ایمان کے شعبوں میں سے ایک شعبہ ہے ، اورکسی کو کسی قسم کی تکلیف نہ دے۔
(۹۳) اہل مدینہ سے خاص محبت سے پیش آئے ،اور اگر ان میں سے کسی کی طرف سے کوئی ناگوار بات پیش آجائے تو فوراًان کو درگذر کرتے ہوئے اپنے عیوب پر نظر ڈالے ،اور ان پر کسی قسم کا اعتراض اور نکتہ چینی نہ کرے ،اور اچھی طرح اس بات کو سمجھ لینا چاہئے کہ ان لوگوں کی حیثیت درباری کی سی ہے ،یہ لوگ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر کے رہنے والے ہیں ،ان کی نسبت بہت اونچی ہے،اور جو حجاج کرام ومعتمرین اور زائرین ہیں وہ سرکاری مہمان کی حیثیت رکھتے ہیں ،اگر باد شاہ کے گھر والوں کی طرف سے کوئی معاملہ پیش آئے اس کو برداشت کیاجاتا ہے ،یہ درباری لوگ ہیں توبہ کرکے ذرا سی دیر میں ان کا معاملہ صاف ہوجائے گا ،مقرب بن جائیں گے ،ہم ان کا اکرام بھی کریں اور ان کا احترام بھی کریں ،اسی طرح بادشاہ کا کوئی مہمان ہو اس کی طرف سے کوئی معاملہ پیش آئے اس کو بھی برداشت کرتے ہیں تحمل کرتے ہیں ،پھر یہ کہ ہم لوگوں کی یہاں