حج فوت ہو جانے کے احکام
مسئلہ: جس شخص نے حج کا احرام باندھا اور دسویں ذوالحجہ کی صبح صادق سے پہلے پہلے عرفات میں نہ پہنچ سکےتو اس کا حج فوت ہو گیا، ایسے شخص کو فائت الحج کہا جاتا ہے۔ اس کا حکم یہ ہے کہ جب حج فوت ہو جائے تو اس احرام سے عمرہ کے افعال یعنی طواف اور سعی کر کے بال منڈا کر احرام سے نکل جائے اور طواف شروع کرنے سے پہلے پہلے تلبیہ پڑھانا بند کردے۔
مسئلہ: اگر فائت الحج مفرد تھا تو اس پر صرف حج کی قضا واجب ہے اور اگر قارن تھا جس نے عمرہ نہیں کیا تھا تو یہ شخص اول تو ایک طواف اور سعی عمرہ کے لئے کرے اس کے بعد ایک عمرہ حج فوت ہو جانے کی وجہ سے کرے، اس کے بعد بال منڈا کر حلال ہو جائے اور اس صورت میں اس پر صرف حج کی قضا واجب ہوگی اور دم قران ساقط ہو جائیگااور قضا میں عمرہ کرنا واجب نہ ہوگااور طواف ثانی شروع کرنے سے پہلے پہلے تلبیہ پڑھنا ختم کر دے اور اگر عمرہ کر چکا تھا تو اس کا وہی حکم ہے جو مفرد کا حکم اوپر بیان ہوا یعنی حج فوت ہو جانے کی وجہ سے عمرہ کے افعال ادا کر کے اور حلق یا قصر کر کے حلا ل ہو جائے۔اور حج کی قضاء کرے اور متمتع تھا (جس نے عمرہ کر کے بال منڈا کر حج کا احرام باندھا) تو حج فوت ہو جانے کی وجہ سے عمرہ کرے اور حلق یا قصر کر کے حلال ہو جائے اور آئندہ حج کی قضا کرے۔