ما نوی» (الحدیث) یعنی اعمال قبول ہونے کا دار ومدار نیتوں پر ہے اور ہرشخص کیلئے وہی ہے جو اس نے نیت کی ۔
اور اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں اہل استطاعت پر حج فرض قرار دیتے ہوئے اخلاص کی اہمیت کی طرف بھی اشارہ فرمادیا : {ولِلہ} کو{عَلَیٰ النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ} پر مقدم فرمایا اور یہ قرآن حکیم کے اسلوبِ بیانی کے محاسن میں سے ہے ۔
(۲)حج وعمرہ کاہرعمل سنت کےموافق کرنےکاعزم کرنا
عمل کے مقبول ہونے کی اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ شرط بھی ہے کہ یہ عمل رسول اللہﷺکے طریقے کے مطابق ہو ۔ رسول اللہ ﷺنے عملی طور پر امت کو حج کرکے دکھلایا اور فرمایا : «خذوا عنی مناسککم» یعنی مجھ سے اپنے حج کے احکامات سیکھ لو ۔سنت کا طریقہ ہی ہے جو اللہ سے ملا تا ہے۔
نقش قدم نبی ﷺ کےہیں جنت کےراستے
اللہ سے مِلاتے ہیں سُنّت کے راستے
(۳) استخارہ ومشورہ کرنا
سفرحج وعمرہ سے پہلے ہوشیار تجربہ کار دیندار شخص سے ضروریاتِ سفر سے متعلق مشورہ کرلے اور استخارہ بھی کرے لیکن اگر حج فرض ہے تو نفس حج کے لئے استخارہ کی ضرورت نہیں بلکہ راستہ وقتِ جہاز وغیرہ دیگر امور کیلئے استخارہ کیا جائے البتہ اگر حج نفل ہے تو نفسِ حج کیلئے بھی استخارہ کرے ۔