بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للّٰہ الذي أخرجنا من الظلمات إلی النور، والصلاۃ علی رسولہ سیدنا محمد الہادي إلی ما یوجب السرور والحبور، وعلی آلہ وصحبہ الذین نشروا الحق بسعیھم المشکور۔
اما بعد! اس زمانہ میںاکثر مسلمانوں کو دیکھا جاتاہے کہ اپنی رسومِ اختراعیہ کے اس قدر پابند ہیں کہ فرض وواجب کے قضا ہوجانے کا غم نہ ہو، مگر ان رسوم میں رائی برابر بھی کمی نہ ہو، اور ان کی بدولت طرح طرح کی پریشانی اور تنگ دستی اور مصیبت میں مبتلا ہوتے ہیں، اور دین ودنیا دونوں کھوتے ہیں اور چوںکہ ہر کہ ومہ میں ان کا رواج عام ہے، اس لیے ان کی برائی بھی دل میں بس برائے نام ہے، بلکہ بعض امر تو بعض کے نزدیک اچھا بلکہ ثواب کاکام ہے، یہی وجہ ہے کہ ناصحین سے الجھتے ہیں اور لغو شبہات و تاویلیں کرکے اپنے عمل کو حق سمجھتے ہیں۔ پھر بعض رسوم کو اعتقاد۔ً ا معصیت بھی جانتے ہیں، گو عملاً اس کو ہلکا اور اپنے کو اس کے کرنے میں مجبور و معذور جانتے ہیں، لیکن بعض کو بالکل مباح وحلال ٹھہرایا ہے اور اس سے بڑھ کر یہ غضب ہے کہ بعض کو طاعت وعبادت بنایا ہے۔ چوںکہ اس دنیا کا نقصان، عاقبت کا خسران تھا؛ اس لیے مسلمانوں کو اس پر مطلع کرنا مقتضائے خیر خواہی اہلِ ایمان تھا۔
بناء۔ً علیہ ضروری معلوم ہوا کہ بعض رسوم کثیر الشیوع کے باب میں کچھ عرض کیا جاوے، اور برعایتِ عام فہم اس باب میں بہت سلیس عبارت و تقریر سے کام لیا جاوے، اور باعتبارِ اقسامِ سہ گانہ مذکورہ کے اس کی تین باب پر تقسیم ہے اور ہر باب کے فصول متعددہ میں ایک رسم کے حکم کی تعلیم ہے اور چوںکہ قسم اوّل کی قباحت بدیہی اور جلی ہے اور قسم دوم کی اس سے زیادہ اور قسم سوم کی اس سے زیادہ نظری اور خفی ہے۔ اور بدیہی کی تقدیم نظری پر واجب ہے، اس لیے ترتیبِ ابواب اسی طرح مناسب ہے اور ہر چند کہ اس کے علاوہ اور ہر جگہ بہت سی مختلف رسوم ہیں، جوکہ عوام و خواص سب کومعلوم ہیں، مگر چوںکہ ان میں قریب قریب یہی خرابیاں ہیں، اس لیے سب کی تفصیل ضروری نہیں۔ سمجھ دار آدمی ذرا بھی غور کرلے تو سمجھ لینا دور نہیں۔ وأسمیہا بـإصلاح الرسوم، وأبدأ ہا متوکلا علی واہب العلوم۔