ترجمہ: اپنے اس پروردگار کا نام لے کر پڑھئے جس نے پیدا کیا، جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا، پڑھئے! آپ کا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعہ علم سکھایا،انسان کو وہ سب کچھ سکھایا جس سے وہ ناآشنا تھا۔
حضرت آدم علیہ السلام کو ملائکہ پر ’’تعلیم اسماء‘‘ ہی کی بنیاد پر فضیلت دی گئی اور خلافت ارضی کی ذمہ داری عطا کی گئی، خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقاصد بعثت کے ذیل میں قرآن کریم میں جابجا تعلیمِ کتاب وحکمت کا ذکر ملتا ہے، اسی کا تذکرہ کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
انما بعثت معلماً۔
ترجمہ: مجھے معلم بناکر بھیجا گیا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ علم کی طاقت سے ہر معرکہ سَر ہوسکتا ہے، اسی لئے اس کو ہتھیار قرار دیا گیا ہے، اس کے ذریعہ ہر دشمن کو زیر کیا جاسکتا ہے، قرآنِ کریم کے بیان کے مطابق قارون کی بے پناہ دولت وثروت، شان وشوکت، تعیش وطمطراق اور ٹھاٹ باٹ کو دیکھ کر ظاہر بیں سطحی لوگ ریجھنے لگے اور کہنے لگے:
یا لیت لنا مثل ما اوتی قارون، انہ لذو حظ عظیم۔ (القصص: ۷۹)
ترجمہ: کاش! ہمیں بھی وہی کچھ ملتا جو قارون کو ملا ہے، وہ تو بڑانصیبے والا ہے۔
مگر اس ثروت وتعیش کو اگر کسی نے پرِکاہ اور ذرۂ بے مقدار کے برابر بھی قابل اعتناء نہ سمجھا تو علم کی دولت سے بہرہ مند افراد نے، انہوں نے علم کی دولت وطاقت کے ذریعہ سے مادیت پرستی اور دنیوی ہنگامی آرائشوں کی طاقت کو توڑ دیا، اور کہا:
ثواب اللّٰہ خیر لمن اٰمن وعمل صالحاً، ولا یلقّٰہا الا الصابرون۔
(القصص: ۸۰)
ترجمہ: اللہ کا ثواب اس شخص کے لئے بدرجہا بہتر ہے جو ایمان لائے اور