اختر تاباں |
ذکرہ عا |
|
میں شریک ۹۸فیصد حضرات یقینی طور پر اتباع کا وعدہ کر کے اور طے کرکے اٹھتے تھے۔ عظمت رسالت کی طرح عظمت صحابہ بھی حضرت والا کے ہر ہر رگ وپئے میں پیوست تھی، ایک وعظ میں فرمایا: ’’حضرات ِصحابہ کی عظمت پر احقر کے دو شعر ہیں ؎ خدا نے خود جنہیں بخشا رضامندی کا پروانہ انہیں پر بعض ناداں کچھ گڑھا کرتے ہیں افسانہ خدا کی رائے سے بھی منحرف تو ہے معاذاللہ میں کہہ دوں کیوں نہ اے ظالم تجھے پھر حق سے بیگانہ اور عظمت صحابہ کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان’’صلوا کمارأیتمونی اصلی‘‘ ہی کافی ہے کہ تم ایسے نماز پڑھو جیسے مجھے پڑھتا ہوا دیکھتے ہو، کیا قیامت تک کسی غیر صحابی کو یہ نعمت مل سکتی ہے کہ اس نے رسول ِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھا ہو، پوری کائنات میں یہ شرف صرف صحابہ کو حاصل ہے ۔‘‘(خزائن شریعت وطریقت/۷۵) حضرت کو چونکہ اشعار کا اعلیٰ ذوق تھا ، بے شمار نعتیں حضرت نے وارفتگی اور غایت عشق و عقیدت کے عالم میں کہی ہیں ، ہر نعت کا ہر شعر حضرت کے دل میں موجود عظمت و محبت رسالت کا آئینہ دار ہے ، خاص طور پر اتباع سنت کے تعلق سے حضرت کا یہ شعر تو بے انتہا مقبول و معروف ہوا ؎ نقش قدم نبی کے ہیں جنت کے راستے اللہ سے ملاتے ہیں سنت کے راستے حضرت نے اپنی پوری زندگی سنتوں کی اتباع اور اس کی دعوت میں صرف فرمائی ہے ،