اختر تاباں |
ذکرہ عا |
|
وظیفہ بھی نہیں بتاتا کہ جس کو پڑھنے سے ان کے دماغ میں خشکی بڑھ جائے، مختصر ذکر بتاتا ہوں ، کیونکہ ولایت کثرتِ ذکر پر نہیں ، گناہوں سے بچنے پر موقوف ہے‘‘۔حضرت تھانویؒ سے عقیدت طب کی تعلیم کے دوران آپ کا دینی شغف فزوں سے فزوں تر ہوتا رہا، حضرت تھانویؒ کا وعظ ’’راحت القلوب‘‘ آپ کو دست یاب ہوا، اس نے تو گویا ایک آگ سی لگادی، اور پہلے سے کہیں زیادہ دل سوختہ اور وارفتہ بنادیا، حضرت تھانویؒ کے وعظ نے آپ کے دل میں محبت وعقیدت کی جوت جگا دی تھی، آپ نے حضرت سے بیعت ہونے کا ارادہ فرمالیا، مراسلت شروع کی، جواب آیا کہ حضرت علیل ہیں ، خلفاء میں سے کسی سے تعلق پیدا کرلیا جائے، چند ہی ہفتوں بعد حضرت تھانویؒ کا وصال ہوگیا، یہ خبر معلوم ہوکر آپ کو بے انتہاء صدمہ ہوا اور باربار یہ شعر آپ کی زبان پر آتا رہا: جو تھے نوری وہ گئے افلاک پر مثل تلچھٹ رہ گیا میں خاک پروالد صاحبؒ کی وفات اِدھر آپ نے طب کی تعلیم مکمل کی، اُدھر والد ماجد کاحادثۂ وفات پیش آیا، غم کا گویا ایک پہاڑ آپ پر ٹوٹ پڑا، لیکن آپ نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔حضرت مولانا محمد احمد پرتابگڈھیؒ کی بارگاہ میں کامل مصلح ومرشد کی تلاش آپ کو مضطرب کئے ہوئے تھی، اللہ نے آپ کو الٰہ آباد میں مقیم ولیٔ کامل اور سلسلۂ حضرت فضل رحمن گنج مرادآبادیؒ سے وابستہ بے نفس فنا فی اللہ بزرگ