اختر تاباں |
ذکرہ عا |
|
علوم دینیہ سے مستغنی نہ ہوں اور شریعت و طریقت کو الگ الگ نہ سمجھیں ، اورجہاں تزکیہ مقدم ہے ، وہاں علمائِ دین کو تنبیہ ہے کہ تزکیہ کی نعمت سے غافل نہ ہونا، اس کی حضرتؒ نے عجیب مثال دی تھی کہ ظرف کی صفائی سے مقصود مظروف ہوتا ہے ، شیشی کی صفائی سے مقصود عطر ہوتا ہے کہ صاف شیشی میں ڈالا جائے، تعلیم کتاب کے تقدم میں علم کی عظمت کا بیان ہے کہ صوفیاء عمر بھر قلب کی شیشی ہی نہ دھوتے رہیں ، علوم دین کی بھی فکر کریں ، اور تزکیہ کے تقدم میں علمائِ کرام کوہدایت ہے کہ قلب کی شیشی کی صفائی کی فکر کریں کہ گندی شیشی میں عطر کی خوشبو ظاہر نہ ہوگی، غیر مزکیّٰ قلب سے فیضان علوم نہ ہوگا۔( فغان اختر/۵۴۹)(۴) فرار الی اللہ(اللہ کی طرف بھاگنے )کی تفسیر مؤمن کی امتیازی شان یہ ہے کہ حسن کا عالم شباب ہو، اور طبیعت کا شدید میلان اور ہیجان ہو کہ اس کو دیکھ لو، اس کا بوسہ لے لو، گناہ کرلو، مومن اس وقت اللہ کے خوف سے بھاگتا ہے ،شباب حسن سے صرف نظر کرتا ہے اس کا نام ’’ فرار ِ شرعی‘‘ ہے ، اورففرواالی اللہ میں اسی فرار کا حکم ہے ، اور فرارِ شرعی کی تین قسمیں ہیں ، آنکھوں سے حسین لڑکیوں اور لڑکوں کو نہیں دیکھا، شدید تقاضے کے باوجود نگاہِ چشمی کی حفاظت کی یعنی اپنی نگاہوں کوحسینوں سے بچایا اس کا نام ’’ فرار عینی‘‘ ہے ،اس کے بعد نگاہ قلبیِ کی بھی حفاظت کی یعنی دل میں گندے گندے خیالات نہیں پکائے، دل میں قصداً اس حسین کا خیال نہیں لائے اس کا نام ’’ فرار قلبی‘‘ ہے، اس کے بعد جسم سے بھی بھاگے، حسینوں کے پاس سے اپنے جسم کو بھی دور کردیا، اسباب گناہ سے