اختر تاباں |
ذکرہ عا |
|
اپنے دامن میں علمی خزانوں کو سمیٹے ہوئے ہیں ۔ ذیل میں ہم چند نمونے درج کرتے ہیں تاکہ ناظرین اندازہ کرسکیں کہ حضرت والا کا علمی رسوخ کیسا تھا اور اللہ نے کیسی نکتہ رسی اور دقت نظر آپ کو عطا فرمائی تھی۔(۱) صدیق کی تعریف علامہ آلوسیؒ نے صدیق کی تین تعریفیں بیان فرمائی ہیں : (۱) الذی لا یخالف قالہ حالہ ( جس کا قول اور حال ایک ہو یعنی دل و زبان ایک ہو) (۲) الذی لا یتغیر باطنہ من ظاہرہ (جس کا باطن ظاہری حالت سے متاثر نہ ہو) (۳) الذی یبذل الکونین فی رضا محبوبہ ( صدیق وہ ہے جو دونوں جہان اللہ پر فدا کردے) صدیق کی تین تعریفیں تو آپ نے سن لیں اور چوتھی تعریف اللہ تعالیٰ نے اختر کو اپنے مبدئِ فیض سے براہ راست عطا فرمائی ، بدعائے بزرگاں اگر اختر کو بھی عطا ہوجائے تو کیا تعجب ہے ، وہ چوتھی تعریف یہ ہے کہ جو بندہ اپنی ہر سانس کو اللہ پر فدا کرے اور ایک سانس بھی اللہ کو ناخوش کر کے حرام خوشیاں اپنے اندر نہ لائے یہ بھی صدیق ہے ۔ ( فغان اختر/۳۶۳-۳۶۴)(۲) منافق: مستقل احمق منافقین صحابہ کرامؓ کو بے وقوف، فاتر العقل اور ہوش وخرد سے ناآشنا کہتے تھے، حق جل مجدہ کی جانب سے جب یہ مطالبہ ہوتا ہے کہ اس جیسا ایمان لاؤ جیسا کہ صحابہؓ ایما ن لائے ہیں تواس کی تحقیر کرتے ہوئے فقرے کستے اور کہتے کہ ’’ أنؤمن کما آمن السفہاء‘‘ کیا ہم ویسے ہی مسلمان ہوجائیں جیسے احمق لوگ بن گئے ہیں ؟ اللہ تعالیٰ کو ان کی یہ گستاخی بڑی ناگوار گزری اور فرمایا’’ ألاانہم ہم السفہاء‘‘علم نحو کے اعتبار سے یہ مستقل