اختر تاباں |
ذکرہ عا |
|
رہے ، خلق خدائے تعالیٰ قریب سے اور دور ہوتے بھی ان سے مستفید ہوتی رہی ؎ دل گلستاں تھا تو ہر شیٔ سے ٹپکتی تھی بہار دل بیاباں جب ہوا عالم بیاباں ہوگیا حضرت جلّ و علا نے بیان کی جو نعمتِ عظیمہ حکیم محمد اختر صاحبؒ کو عطا کی تھی وہ نرالی، انفرادی شان والی تھی جو کم یاب ہی نہیں فی زمانہ نایاب بھی ہے ،و ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء۔‘‘(۶)حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتہم: ’’ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب قحط الرجال کے اس دور میں ایک عظیم شخصیت تھے، جن سے دنیا کو روحانی فیض پہنچا، حضرت مولانا حکیم اختر صاحب ؒ کی روحانی مجالس، مواعظ اور تربیت سے بڑی خوش گوار تبدیلیاں رونما ہوئیں ، ان کی زبان میں اللہ نے بڑی مٹھاس اور تاثیر رکھی تھی، جو کچھ بولتے تھے اور لکھتے تھے اس سے دل میں حرارت پیدا ہوتی تھی، بہترین شاعر بھی تھے، دنیا کی بے ثباتی پر ان کے اشعار اپنے اندر ایک خاص کیفیت اور اثر رکھتے ہیں ، جن کو سننے کے بعد آدمی تڑپ اٹھتا ہے ، اور ان کے اصلاحی بیانات میں تربیت کا ایک خاص انداز نظر آتا ہے ، جس میں علمیت کے ساتھ روحانیت اور سوز کے ساتھ درد بھی پایا جاتا ہے ۔ حضرت مرحوم، حکیم ا لامت مجدد ملت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحبؒ کے سلسلہ سے وابستہ تھے، ان کے اصلاحی بیانات اور مجلسوں سے خو ش گواری کی فضا پیدا ہوئی اور وہ آخر ی دم تک بندگانِ خدا کی