اختر تاباں |
ذکرہ عا |
|
بھی نہیں ملتی، اپنے مرشد کی محبت اور عقیدت میں حضرت والا کا رنگ وہی تھا جو فارسی شاعر نے اس طرح بیان کیا ہے ؎ من تو شدم، تو من شدی، من جاں شدم تو تن شدی تاکس نہ گوید بعد ازیں ، من دیگرم تو دیگریحضرت محی السنۃؒ کے دربار میں حضرت پھول پوریؒ نے اپنے مریدین ومتعلقین ومنتسبین کو اپنے بعد حضرت تھانویؒ کے آخری خلیفہ اور بزم اشرف کے آخری چراغ حضرت محی السنہ ہردوئی سے رجوع کی تاکید فرمائی تھی، حضرت والا نے اسی کی تعمیل میں حضرت ہردوئی سے اصلاحی تعلق قائم فرمایا اور ۱۳۸۷ھ میں خلافت واجازت سے نوازے گئے، حضرت ہردوئیؒ سے حضرت والا کو عقیدت ومحبت کا بے مثال تعلق تھا، حضرت ہردوئیؒ کے ملفوظات کا مجموعہ ’’مجالس ابرار‘‘ کے نام سے حضرت والا نے مرتب فرمایا تھا جسے بحمد اللہ قبولِ عام حاصل ہوا، اسی طرح حضرت محی السنہ کے حکم پر ’’ایک منٹ کا مدرسہ‘‘ نامی کتاب حضرت نے مرتب کی جس نے مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔اپنے شیوخ سے غایت تعلق اور جذبۂ احسان مندی اہل اللہ اور بطور خاص اپنے مرشدین سے حضرت والا کے تعلق، محبت، عقیدت کا کیا رنگ تھا، خود حضرت کی زبانی سنئے، فرماتے ہیں : ’’اللہ کی ایک نعمت کو بطور شکر کے تحدیث نعمت کے طور پر بیان کرتا ہوں اور فخر اور جاہ سے پناہ چاہتا ہوں ، جب میں بالغ ہوا تو حضرت مولانا محمد احمد صاحب پرتابگڈھیؒ بحیات تھے، ان کی صحبت میں تین سال رہا، اس کے بعد حضرت مولانا شاہ عبدالغنی صاحب پھول پوریؒ سے بیعت ہوا، تو ان