اختر تاباں |
ذکرہ عا |
|
علماء حق کے خطبات ومواعظ میں شرکت کا اہتمام فرماتے، طبیعت شروع ہی سے دنیا سے بے رغبت، خلوت پسند اور اللہ کی طرف متوجہ تھی، اسی دور میں علامہ جلال الدین رومی کی مثنوی سے والہانہ شغف اور مثنوی کے اشعار سے ایک ذوق پیدا ہوا جو مسلسل بڑھتا گیا۔ حضرت فرمایا کرتے تھے کہ: ’’میرے شیخ اول تو مولانا رومیؒ ہیں ، جن سے میرے قلب مضطر کو بہت تسکین ملی، اور اللہ کی محبت کا درد، اولاً مولانا رومیؒ سے ہی حاصل ہوا۔‘‘ اسی زمانہ میں مثنوی شریف کے اشعار پڑھ پڑھ کر روتے تھے۔طب کی تعلیم درجہ ہفتم کے بعد حضرت کو والد گرامی نے طبیہ کالج الٰہ آباد میں داخل کرادیا، اور فرمایا کہ پہلے طب کی تعلیم مکمل کرلو، پھر عربی کی تعلیم مکمل کرنا،چناں چہ حضرت الٰہ آباد تشریف لے گئے، وہاں مقیم رہے، طب کی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا، حضرت والاؒ نے اپنی مجالس میں فرمایا: ’’طبیہ کالج میں داخلہ اس وقت مجھے بہت گراں گزرا تھا، لیکن میرے والد صاحب نے فرمایا کہ میں تمہیں طب کی تعلیم اس لئے دے رہا ہوں تاکہ دین تمہارا ذریعۂ معاش نہ بنے، اور دین کی خدمت تم صرف اللہ کے لئے کرو، آج والد صاحب کے لئے دل سے دعائیں نکلتی ہیں کہ واقعی اس سے بہت فائدہ ہوا کہ آج کوئی اس قسم کا ا لزام نہیں لگاسکتا،کیونکہ میرا اپنا دواخانہ اور کتب خانہ ہے ،اللہ تعالی جزائے خیر عطا فرمائے میرے والد صاحب کو کہ انہوں نے مجھے طب پڑھائی، جس سے مجھے اپنے احباب کو غیرمعتدل ہونے سے بچانے میں مدد ملتی ہے، اور ان کو معتدل رکھنے کے لئے اپنی طب کو کام میں لاتے ہوئے ان کی صحت کا پورا خیال رکھتا ہوں ، اتنا