اختر تاباں |
ذکرہ عا |
|
حضرت کی قربت بڑھتی چلی گئی، یہ من جانب اللہ ایک تدبیر تھی جس نے حضرت والا کو اپنے مرشد کے فیض و تربیت سے کندن بنادیا۔حضرت پھولپوریؒ کی بے مثال خدمت حضرت پھول پوریؒ کے یہاں جذبِ عشق اور مستی کا عجب عالم ہوتا تھا، گھر میں نہ بیت الخلاء تھا نہ غسل خانہ، قضائے حاجت کے لئے جنگل میں جانا ہوتا تھا، وضو اور غسل کے لئے قریب کے تالاب میں جانا پڑتا تھا، جس کا پانی سردیوں میں برف کی طرح ٹھنڈا ہوجاتا تھا، مسجد کے قریب ایک کنواں تھا جس کا پانی حضرت پھول پوریؒ استعمال نہیں فرماتے تھے، اسی لئے حضرت والا اپنے شیخ کے استعمال کے واسطے شدید گرمی میں بھی روزانہ خانقاہ سے ایک میل دوری پر واقع ندی سے پانی بھرکر لاتے تھے۔ حضرت والا کے محبِ خاص جناب الحاج محمد الیاس صاحب قریشی دہلوی نے اپنا یہ چشم دید واقعہ سنایا کہ ۱۹۵۸ء میں حضرت مولانا شاہ عبدالغنی پھول پوریؒ ہمارے گھر واقع کوچہ مہرپرور دہلی تشریف لائے، ان کے ہمراہ حضرت حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم بھی تھے، حضرت حکیم صاحب کے عنفوانِ شباب کا زمانہ تھا، شدید سردی کا موسم تھا، میری والدہ حیات تھیں اور وہ بھی بوڑھی تھیں ، والد صاحب پہلے فوت ہوچکے تھے، حضرت شاہ عبدالغنی صاحبؒ نے مجھ سے فرمایا کہ اپنی والدہ سے کہہ دیں کہ عشاء کے وقت ہی تہجد کے وضو کے لئے پانی گرم کرکے دے دیا کریں ، رات کو اٹھنے کی بالکل تکلیف نہ فرمائیں ، محمد اختر خود انتظام کرے گا، چناں چہ روزانہ لوہے کے ایک برتن میں پانی گرم کرکے دے دیا جاتا، جسے حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم گہرے خاکی رنگ کے کمبل میں لپیٹتے اور اس کو اپنے پہلو میں رکھ لیتے، اور اوپر سے لحاف اوڑھ لیتے؛ تاکہ ان کے جسم اور لحاف کی گرمی سے پانی ٹھنڈا نہ ہو، اور رات بھر اسی طرح اسے لئے ہوئے نہ معلوم کس طرح سوتے، اور تہجد کے وقت