اختر تاباں |
ذکرہ عا |
|
زندگی کا بہت بڑا حصہ اللہ والوں کے ساتھ اختر نے گذارا ہے، کیا یہ اللہ تعالیٰ کا احسان نہیں ہے؟ اگر وہ توفیق نہ دیتا تو ہمت ہوتی؟ سوچتا کہ اپنے مستقبل کی فکر کرو، نوکری کرو، کہیں پیسہ کماؤ، لیکن شیخ کے ساتھ کراچی میں سال بھر رہ گیا، میرے بال بچے ہندوستان میں تھے اور بہت تکلیف اور سخت حالات میں تھے، ایسے ایسے دن گذرے ہیں ، اللہ تعالیٰ کا شکر ہے جس طرح انہوں نے تربیت کی وہ اللہ تعالیٰ کا فضل خاص ہے کہ انہوں نے توفیق دی، اپنے راستہ کے غم جس کو دیں ان کا احسان ہے، ان کے راستے کا غم پھولوں سے افضل ہے، گناہوں سے بچنے میں بھی تو غم ہوتا ہے مگر اس غم پر دنیا بھر کے پھول، دنیا بھر کی خوشیاں قربان ہوجائیں تو اس کا حق ادا نہیں ہوسکتا‘‘۔ (پردیس میں تذکرۂ وطن ۱۶۷-۱۶۸)حضرت پھولپوری سے بے نظیر اور قابل رشک خادمانہ وفادارانہ تعلق حضرت والا اپنے مرشد حضرت پھول پوریؒ کی وفات تک سایے کی طرح ان کے ساتھ رہے، اور خدمت ورفاقت کا حق ادا کردیا، حضرت ہردوئیؒ نے ایک مکتوب میں حضرت والا کو لکھا تھا: ’’از ابتداء تا انتہا خدمت شیخ مبارک ہو، آپ سے دین کا جو عظیم الشان کام لیا جارہا ہے یہ حضرت پھول پوریؒ کی خدمت کا صدقہ ہے‘‘۔ حضرت والانے حضرت پھولپوریؒ کی جانشینی کا حق بھی ادا کردیا اور ان کے علوم و فیوض اوراداؤں کواپنے اندر سموکر دکھادیا کہ دیکھنے والوں کو حضرت پھولپوری کی یادتازہ ہوگئی، بطور خاص سادگی اور تواضع و انکساری کی ادا تو اس درجہ نمایاں تھی کہ اس کی نظیر ڈھونڈنے سے