اختر تاباں |
ذکرہ عا |
|
اِک شمع رہ گئی تھی سو وہ بھی خموش ہے انتہائی روح فرسا حادثہ ۲۳؍رجب المرجب ۱۴۳۴ھ مطابق ۲؍جون ۲۰۱۳ء کی تاریخ دین اور علوم دین سے نسبت رکھنے والے تمام افراد کے لئے جس دل گداز، روح فرسا اور جانکاہ حادثے اور سانحے کی خبر لے کر آئی، وہ بقیۃ السلف، عارف باللہ حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب قدس اللہ سرہ کی وفات کا حادثہ ہے۔ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی شکل میں ایسا دریائے فیض رواں تھا جس سے برصغیر ہی نہیں ، یوروپ، افریقہ وغیرہ تک کے اہل ایمان مستفید ہورہے تھے، حضرت نے اس پرفتن وپرآشوب دور میں اپنی ۹۰؍سالہ طویل مبارک عمر میں خالص سنت کی پیروی سے آراستہ اور ہر قسم کے انحراف اور غل وغش سے پاک فہم دین کو عملی شکل میں مجسم کرکے دکھایا اور اپنی گفتار وکردار، صورت وسیرت، تعلیم وتربیت ہر چیز کے ذریعہ شریعت وطریقت کا حسین، متوازن اور جامع امتزاج عام فرماکر اپنے اکابر بطور خاص حضرت حکیم الامت تھانویؒ کے فیض کو زندہ وجاوداں رکھا، اس لئے حضرت کی وفات صرف کسی ایک فرد کی وفات نہیں ؛ بلکہ پورے عہد، اس کے مشعل راہ بننے والے مزاج ومذاق اور اس کے روشن امتیازات وخصوصیات کا خاتمہ ہے۔ بقول شاعر: وما کان قیس ہلکہ ہلک واحد ولکنہ بنیان قوم تہدما