اختر تاباں |
ذکرہ عا |
|
نواں امتیاز قرآن اور معارف قرآن سے خاص شغف حضرت والا کا ایک نمایاں امتیاز قرآن اور معارف قرآن سے خاص ربط، تعلق اور شغف تھا، ہر مجلس اور وعظ میں یہ قرآنی رنگ بالکل نمایاں رہتا تھا، بطور خاص علامہ آلوسیؒ کی تفسیر روح المعانی گویا آپ کو حفظ تھی، بکثرت اس کی عبارتوں کا حوالہ دیتے تھے لمبے لمبے پیراگراف روانی سے پڑھتے چلے جاتے تھے، اسی طرح حدیث کی بلندپایہ کتاب’’ مشکوۃ المصابیح‘‘ سے خاص مناسبت تھی ، اور مشکوۃ کی مستند شرح’’ مرقاۃ المفاتیح‘‘ ( از ملا علی قاریؒ) کی طویل عبارات آپ کو یاد تھیں ، اور موقعہ بہ موقعہ آپ اسے اپنے مواعظ میں سناتے تھے۔ ایک سفر میں حضرت والا ہردوئی تشریف لے گئے تو حضرت مولانا محمد احمد صاحب سے حضرت والا کے تعلق کی وجہ سے شیخ نے حکم دیا کہ الٰہ آباد میں مولانا محمد احمد صاحب آپ کے منتظر ہیں جا کر ان سے مل آیئے، مولانا نے وہاں حضرت کا بیان کرایا،بیان کے بعد فرمایا کہ روح المعانی کے حوالوں سے تو بہت سے علماء بیان کرتے ہیں لیکن آپ جو روح المعانی سے بیان کرتے ہیں اس کا مزہ ہی کچھ اور ہے اللہ تعالیٰ نے جو درد آپ کو عطا فرمایا ہے وہ روح المعانی کی لذت بڑھادیتا ہے ۔( فغان اختر/۲۴۴)دسواں امتیاز اعلیٰ ذوق شعری حضرت مولانا محمد احمد صاحب پرتابگڈھیؒ کے فیض صحبت سے حضرت والا کو حمدیہ، نعتیہ اور عارفانہ اصلاحی شاعری کا اعلیٰ ذوق حاصل ہوا تھا، محبتِ خدا ورسول سے لبریز اشعار کے کئی مجموعے شائع ہوچکے ہیں ، اور سب ’’از دل خیزد بر دل ریزد‘‘ کا مصداق ہیں ۔