اختر تاباں |
ذکرہ عا |
|
(۱۱) تقدیر کے متعلق ایک اشکال کا جواب بعض لوگوں کو شیطان الوبناتا ہے کہ ہماری قسمت میں تصوف نہیں ہے ،شاید میں بد نصیب ہوں ، میر ی قسمت ہی خراب ہے ، اپنے کرتوت ، اپنی نالائقیوں کو تقدیر کے حوالے کرتے ہو،یادرکھو! تقدیر علم الٰہی کا نام ہے، امر الٰہی کا نہیں ہے ،یعنی اللہ نے تم کو حکم نہیں دیا کہ تم یہ کام کرو بلکہ جو کام ہم اپنے ارادے سے کرنے والے ہیں اس کو اللہ نے لکھ دیا ، ایسا نہیں کہ نعوذ باللہ، اللہ لکھتا ہے کہ تم اب زنا کرو تب ہم زنا کرتے ہیں یا اللہ چاہتا ہے کہ تم جھوٹ بولو تب ہم جھوٹ بولتے ہیں بلکہ یہ سب ہماری بدمعاشیاں اور خباثت طبع ہے ، سب کمینے، بے غیرت اور جاہل لوگ ہیں جو اپنے عیب کو چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں ، اس کا نام کوشش ناکام ہے ، احمقانہ کوشش ہے ، لیکن اس سے نقصان کیا پہنچتا ہے ؟ جب آدمی اپنی برائیوں کوتقدیر پر ڈال دیتا ہے تو پھر اس کو استغفار و آہ و زاری کی توفیق نہیں ہوتی ، کہتا ہے کہ ہماری قسمت میں یہی لکھا تھا اب کس چیز کی توبہ کریں ؟ یادرکھو! یہ بہت خطرناک شیطانی مرض ہے ، اس کی وجہ سے ایک تو شیطان تم کو اللہ والوں سے بدگمان کردے گا کہ ان کے پاس خانقاہ میں اتنے دن رہے پھر بھی قسمت نہ بنی اور دوسرے استغفار و آہ وزاری کی توفیق بھی نہیں ہوگی۔ گناہ پر مجبور ہونہ ہونے کی دلیل: اچھا! اگر تمہاری قسمت میں ہے ، تم مجبور ہو تو برا فعل کرنے کے بعد تم کو ندامت کیوں ہوتی ہے ؟ تم شرمندہ کیوں ہوتے ہو؟ یہ ندامت دلیل ہے دو چیزوں کی ، ایک تو یہ کام برا ہے، اچھے کام پر ندامت ہوتی ہے ؟ آپ لوگ یہاں دینی مجلس میں آئے ہیں کیا