اختر تاباں |
ذکرہ عا |
|
تھے، حضرت حکیم الامت تھانویؒ کے مواعظ وبیانات میں جس قدر استشہاد مولانا رومؒ کے اشعار سے ملتا ہے ، اتنا کسی اور سے نہیں ملتا، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے حلقۂ دیوبند میں مثنوی رومی اور اس کے عارفانہ مضامین و نکات سے مناسبت اور استشہاد کے تعلق سے حضرت والا کو آخری شخصیت قرار دیا جائے توغلط نہیں ہوگا۔ حضرت والا کے خادم و معتمد خاص محترم المقام حضرت سید عشرت جمیل صاحب دامت برکاتہم نے بجا لکھا ہے : ’’ معارف و مثنوی ایک بالکل منفرد شرح ہے ،جو محض لفظی ترجمہ نہیں ، بلکہ حضرت رومی کے منتشر اور وسیع علوم کو جمع کر کے دریا کو کوزہ میں بند کردیا ہے ، جس میں حضرت والا کی آتش عشق اور درد دل سے ایک منفرد اور دل آویز اسلوب بیان دلوں میں اللہ کی محبت کی آگ لگا دیتا ہے ۔ حضرت جب مدرسہ بیت العلوم میں پڑھتے تھے تو ایک رات حضرت کے قلب مبارک پر مثنوی کے بعض اشعار کی خاص تشریح وارد ہوئی اور حضرت رات ہی کو فجر کے قریب اپنے شیخ حضرت پھول پوری رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں پھولپور حاضر ہوئے اور فجر کی نماز پھولپور میں پڑھی، مدرسہ بیت العلوم پھولپور سے پانچ میل پر ہے ، حضرت شیخ حضرت کو دیکھ کر خوش ہوئے اور فرمایا کہ اتنے سویرے کیسے آئے؟ عرض کیا کہ حضرت مثنوی کے بعض اشعار کے معانی دل میں آئے ہیں حضرت کی تصدیق کے لئے حاضر ہوا ہوں کہ میں صحیح سمجھا ہوں یا نہیں ؟ حضرت شیخ پھولپوری فجر کے بعد تلاوت، مناجات و اذکار کرتے تھے اور اشراق کی نماز پڑھ کر فارغ ہوتے تھے، اس دن حضرت شیخ نے اپنے تمام معمولات ملتوی کردیئے اور فرمایا کہ سناؤ، حضر ت نے فجر کے بعد تشریح شروع کی یہاں تک کہ دن کے گیارہ بج