اختر تاباں |
ذکرہ عا |
|
کرتا تھا، قونیہ کے سفر میں میں نے وہ جنگل دیکھا ہے جس میں مولانا رومؒ نے اپنی۲۸؍ ہزار اشعار پر مشتمل مثنوی لکھی ہے ، وہ جنگل انوارات سے آج بھی بھرا ہوا ہے ۔( الطاف ربانی: ملفوظات سفر ترکی) حضرت والا کی اس تالیف لطیف نے بے شمار بندگان خدا کے دلوں میں اللہ کی معرفت اور عشق کی آگ بھڑکادی ، اور خود حضرت نے اپنی اس تالیف کا یہی مقصد اپنے پیش نظر رکھا اور ارقام فرمایا : ’’احقر کو مثنوی شریف سے اس وقت سے والہانہ تعلق و شغف ہے جب کہ احقر بالغ بھی نہ ہواتھا، اور پھر حق تعالیٰ نے ایسا شیخ عطا فرمایا جو مثنوی شریف کے عاشق تھے، اور فرماتے تھے کہ مثنوی شریف میں عشق کی آگ بھری ہوئی ہے ،اور اپنے پڑھنے والوں کے سینوں میں بھی آگ لگادیتی ہے، احقر کی ہمیشہ یہ تمنا رہی ہے کہ حق تعالیٰ مثنوی شریف کے علوم ومعارف احقر کے قلم سے اس عشق ناک اور دردناک انداز سے تالیف کرادیں جو ناظرین کے سینو ں میں حق تعالیٰ کی محبت و تڑپ پیدا کرنے کا ذریعہ بن جائے، ہمارا کام ہر ملنے والے سے حق تعالیٰ شانہ کی محبت کا غم بیان کرنا ہے ،پھر جس کے مقدر میں ہوگا اور جس کی زمین تخم عشق الٰہی کے لئے صالح اور لائق ہوگی اس میں میرے لئے صدقہ جاریہ کا انتظام ہوجائے گا، اور زمین شور کے لئے بھی یہ پیغام حجت بن جائے گا ؎ بن کے دیوانہ کریں گے خلق کو دیوانہ ہم بر سر منبر سنائیں گے تیرا افسانہ ہم‘‘ سید الطائفہ حضرت حاحی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کا درس مثنوی اور خاص اندازمعروف و مشہور ہے ،حضرت نانوتو یؒ قرآن مجید ، صحیح بخاری اور مثنوی تینوں کو البیلی کتاب کہا کرتے