اختر تاباں |
ذکرہ عا |
|
خیالات اور دردِدل کا بہترین مرقع ہے ۔‘‘ مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ نے تحریر فرمایا: ’’مولانا حکیم محمد اختر صاحب نے مثنوی کا ذوق اپنے شیخ اول مولانا عبد الغنی پھولپوریؒ سے اخذ کیا، جن کے مثنوی کا ذوق اور عشق میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سنا ہے ، حکیم صاحب نے اردومیں مثنوی کی ایک نئے طرز سے خدمت کی ہے ، اور معارف مثنوی کے نام سے اس کی حکایات کو سلیس او رشیریں اردو میں پیش کرکے بر صغیر ہندوپاک کے اردو داں طبقہ کے لئے مولانا روم کا خوانِ نصیحت و حکمت چن دیا ہے ، اور ان موتیوں کو جو مثنوی کے دفتر میں محفوظ تھے لوگوں کی دسترس میں دے دیا ہے۔‘‘ (مقدمہ معارف مثنوی) مثنوی سے حضرت کا تعلق بچپن سے ہی گہرا تھا، حضرت کو بچپن میں قرآن پڑھانے والے قاری صاحب بھی مثنوی کا ذوق رکھتے تھے اور کبھی بھی پرزور اور پردرد لہجے میں حضرت کو سناتے تھے اور حضرت بے خود ہوجاتے تھے، یہ ابتدائی تعارف و تعلق مرور ایام سے بڑھتا گیا ، یہاں تک کہ حضرت اپنے دور میں مثنوی کے سب سے ممتاز شارح و ترجمان ثابت ہوئے، حضرت علامہ بنوری نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ آپ میں اور مولانا رومی میں کوئی فرق نہیں معلوم ہوتا۔ ا س کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ حضرت والا نے مثنوی کے تعلق سے تین کتابیں ’’ معارف مثنوی،درس مثنوی،فغانِ رومی‘‘ تالیف فرمائی ہیں ،حضرت والا فرماتے تھے کہ: ’’میرے شیخ اول تو مولانا رومی ہیں جن سے مجھے اللہ کی محبت کا درد حاصل ہوا اور مثنوی سمجھنے کے شوق میں نابالغی ہی کے زمانے میں فارسی کی تعلیم حاصل کرنا شروع کردی تھی، اور تنہائی میں مثنوی کے اشعار پڑھ کر رویا