اس لئے ساری تحقیقات انگریزی کی نئی کتابوں سے لی ہے۔ اور اس بات کا خیال رکھا ہے کہ کوئی رد شدہ نظریہ کتاب میں نہ آجائے۔
ہر مضمون کے آخیر میں آیت پیش کرکے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ دیکھیے یہ تحقیق پہلے سے قرآن میں موجود ہے جبتک تحقیق نہیں ہوئی تھی ہماری نگاہ وہاں تک نہیں پہنچ رہی تھی لیکن جب تحقیق ہوئی تو آیت کا مفہوم کتنا واضح ہوگیا اور کھل گیا اللہ نے سچ کہا تھا سَنُرِیْھِمْ آیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْ اَنْفُسِھِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَھُمْ اَنَّہ اَلْحَقُّ اَوَلَمْ یَکْفِ بِرَبِّکَ اَنَّہ عَلٰی کُلِّ شَئیئٍ شَھِیْدٌ (سورۃ حم السجدہ ۴۱ آیت نمبر ۵۳) ترجمہ : ہم عنقریب اُن کو اپنی نشانیاں افقوں پر دیکھائیں گے اور خو اُن کی ذات میں بھی، یہاں تک کہ اُن پر کھل کرہے گا کہ یہ قرآن حق ہے۔ کیا آپ کے پروردگار کا یہ وصف کافی نہیں کہ وہ ہر چھوٹی بڑی چیز کا شاہد ہے (آیت کا ترجمہ مولانا عبدالماجد دریابادی کی تفسیر سے ماخوذ ہے)
آیت کے بعد یہ بھی واضح کیا ہے کہ قرآن کریم کسی انسان کی تحریر نہیں ہے، ورنہ آج کی نئی تحقیقات ہر گز قرآن کے موافق نہ ہوتیں ۔ بل کہ یہ کتاب واقعی خالق ارض وسماء کی ہے جو ان کے ذرے ذرے سے واقف ہیں اور یہ کتاب ہر اعتبار سے سدا بہار معجزہ ہے،
جناب حاجی غلام رسول صاحب بریڈ فورڈ والے کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے کتابت کرکے کتاب کو منظر عام پر لانے کے قابل بنایا اسی طرح حافظ مجیب الحق نیانگری صاحب کا شکر گزار ہوں کہ انھوں نے کتاب کی اشاعت میں بھر پور حصہ لیا
خطاونسیان سے کوئی آدمی محفوظ نہیں خصوصاً جدید تحقیقات کی تحقیق میں تو فغزش ہونے کا زیادہ امکان ہے اس لئے اس کتاب میں کوئی غلطی نظر آئے تو ہمیں مطلع فرائیں اس کے ازالے کی جلد ہی کوشش کروں گا اور شکر گزار بھی ہوں گا۔
رب کریم سے دعاء ہے کہ اس کتاب کو قبولیت سے نوازے اور اس کو اس عاصی کے لئے ذریعہ نجات اور ذخیرہ آخرت بنائے = آمین ثم آمین۔
احوال کائنات
اہل سائنس کا نظریہ یہ ہے کہ اس کائنات میں گیس تھی اس وقت اس کا حجم کم تھا، یہ گیس