ہیں ان سب میں عقل رکھنے والی قوم کے لئے نشانیاں ہیں اس آیت میں بتایا کہ بادل زمین اور آسمان کے درمیان مسخر ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ آسمان بادل سے بہت پرے ہے دوسری آیت میں ہے وَلَقَدْ زَیَّنَّا السَّمَائَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ وَجَعَلْنٰھَا رُجُوْمًا لِلْشَّیٰطِیْنِ (سورۃ الملک ۶۷آیت ۵) ترجمہ : بے شک ہم نے سماء دنیا کو چراغوں سے آراستہ کیا ہے اور ہم نے ان کو شیطانوں کو مارنے کا ذریعہ بنایا ہے تیسری آیت میں ہے۔ اِنَّا زَیَّنَّا السَّمَائََِ الدُنْیَا بِزِیْنَۃِ الْکَوَاکِبِ (سورۃ الصفت ۳۷آیت ۵) ترجمہ: بے شک ہم نے سماء دنیا کو ستاروں سے آراستہ کیا ہے۔ ان دونوں آیتوں میں وضاحت کی گئی ہے کہ یہ تمام ستارے چاہے کسی کہکشاں کے ہوں وہ سماء دنیا یعنی پہلے آسمان کے نیچے نیچے ہیں خداوند کریم خود فرماتے ہیں کہ میں نے پہلے آسمان کو ستاروں سے مزین کیا ہے۔
(۴)چوتھا نظریہ یہ ہے کہ سماء کا لفظ کبھی اوپر کے لئے استعمال ہوتا ہے کبھی مقام بادل کے لئے استعمال ہوتا ہے اور کبھی اصلی آسمان کے لئے استعمال ہوتا ہے جس کی چھت انتہائی مظبوط اور بہت بلند ہے۔ اور مختلف آیتیں مختلف معنوں میں استعمال ہوئیں ہیں ۔ البتہ جہاں انتہائی عظیم آسمان میں غور کرنے کے لئے کہا ہے وہاں وہ اصلی آسمان مراد ہوتے ہیں جس کی چھت بلند ہے اور جس کے نیچے نیچے تمام ستارے اور کہکشائیں ہیں ۔ دلائل کی اعتبار سے یہی نظریہ صحیح معلوم ہوتاہے۔
آسمان کی محفوظ چھت ہے
قرآن کریم نے اس کی بھی وضاحت کی ہے کہ آسمان کوئی پھسپھسی چیز نہیں ہے بل کہ وہ ایک محفوظ چھت ہے اب یہ الگ بات ہے کہ وہ چھت گیس کی لمبی چوڑی پٹی کی ہے یا روشنی کی ہے یا مقناطیس کی ہے یا کسی دھات کی ہے اس کی وضاحت قرآن کریم نے نہیں کی ہے اس کا علم صرف اللہ کو ہے اور ہم لوگوں کو اس کے پیچھے پڑنے کی ضرورت نہیں ہے البتہ یہ ضرور بتلایاہے کہ وہ محفوظ چھت ہے اور س میں فرشتوں اور اعمال کے اوپر چڑھنے اور ان کے اترنے کے لئے دروازے ہیں ارشاد ربانی ہے۔ وَجَعَلْنَا السَّمَائِ سَقْفًا مَّحْفُوْظًا۔ (سورۃ الانبیاء ۲۱ آیت ۳۲) ترجمہ : اور ہم نے (اللہ نے)آسمان کو ایک محفوظ چھت بنایاہے دوسری جگہ ہے اَلَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الاَرْضَ